ملکی تاریخ میں فروری میں ہونے والے الیکشن
Image

پشاور: (رپورٹ، فیضان حسین) ملک بھر میں سیاسی ماحول ڈانواں ڈول ہے، اس کی ایک بڑی وجہ سیاسی رہنمائوں کے الیکشن ملتوی کرانے کے مطالبہ ہے۔ کچھ سیاسی رہنما مطالبہ کر رہے ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات کے باعث بھی الیکشن ملتوی کیے جائیں۔

لیکن ان ہی سیاسی رہنمائوں کو یاد ہوگا کہ 2008 ء اور 2013ء کے الیکشن میں دہشت گردی ملکی تاریخ کی عروج پر تھی ۔ یہاں تک کہ بہت سے سیاسی پارٹیوں کے امیدوار اپنی کمپین تک نہیں کر سکتے تھے۔ ان تمام حالات کے باوجود الیکشن ہوئے۔

اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ملکی تاریخ کے تین الیکشن فروری کے مہینے میں ہو چکے ہیں۔ جن میں 1985، 1997 اور 2008 کے الیکشن شامل ہیں۔1970 کے جنرل الیکشن بھی دسمبر کے مہینے میں ہوئے جس مہینے سخت برف بای کے ساتھ مختلف علاقوں میں بارشیں رہتی تھی۔

1977 کے الیکشن مارچ کے مہینے میں ہوئے جس میں 200 قومی اسمبلی کے ممبران منتخب ہوئے۔ جس میں پیپلز پارٹی ( ذوالفقار علی بھٹو) نے 155 سیٹیں جیتیں جبکہ پاکستان نیشنل الائنس ( پی این اے) جس میں نو سیاسی پارٹیوں کا اتحاد تھا نے 36 سیٹیں جیتیں تھی۔1985 کے جنرل الیکشن 25 فروری کو ہوئے تھے جو کہ جنرل ضیاء کے دور میں کروائے گئے تھے۔

1988 میں جنرل الیکشن 16 نومبر کو ہوئے جس کے بعد شہید بینظیر بھٹو پاکستان کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں۔1990 کے جنرل الیکشن 24 اکتوبر کو کروائے گئے تھے جس میں میاں نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے تھے۔ لیکن اس وقت پاکستان مسلم لیگ، اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھی۔

1993 میں پاکستان کے جنرل الیکشن 6 اکتوبر کو ہوئے جس میں ایک بار پھر شہید بینظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں۔1997 کے جنرل الیکشن بھی 3 فروری کو ہوئے اور نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم بنے۔2002 کے الیکشن 10 اکتوبر کو کروائے گئے جس میں پی ایم ایل ق کے میاں محمد اظہر خود اپنی سیٹ نہ جیت سکے تو ظفر اللہ خان جمالی کو پندرہواں وزیر اعظم بنایا گیا۔

2008 کے الیکشن بھی 18 فروری کو منعقد کیے گئے جس میں یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ 2013 کے الیکشن کا انعقاد 11 مئی کو ہوا جس میں تیسری بار میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے۔2018 کا الیکشن 25 جولائی کو کروائے گئے جس کے بعد تحریک انصاف کے سابق چیئرمین عمران خان وزیر اعظم بنے۔

الیکشن کو ایک ماہ رہ گیا ہے لیکن سیاسی ماحول موسم کی طرح سرد ہیں نہ تو کوئی پارٹی جلسے کروا رہی ہیں نہ ہی کوئی سیاسی گہما گہمی دیکھنے کو نظر آرہی ہیں جس کے باعث عوام کو بھی یقین نہیں آرہا کہ الیکشن بروقت ہونگے بھی یا نہیں۔

حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ملک کی سلامتی کیلئے الیکشن ہونا بہت ضروری ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے سیاسی رہنما الیکشن ایک بار پھر ملتوی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور مطالبہ بھی موسم اور دہشت گردی کے حالات کو سامنے رکھ رہے ہیں۔