اکبر ایس بابر کی پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے کی استدعا مسترد
Image
اسلام آباد: (سنو نیوز) الیکشن کمیشن نے اکبر ایس بابر کی پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے کی استدعا مسترد کر دی۔ ممبر کمیشن نے کہا کہ آئین یہ نہیں کہتا کہ ہم بار بار انتخابات کا حکم دیں۔ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ اکبر ایس بابر کے وکیل سید احمد حسن الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ آئین اور قانون بڑا واضح ہے اس لیے میں یہاں پیش ہوا۔ وکیل اکبر ایس بابر نے کمیشن کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے تحت انتخابات کا حکم دیا تھا، ووٹر لسٹ نہیں بنی، نامزدگی کا طریقہ کار نہیں تھا، پارٹی آئین میں الیکشن پروگرام کا ذکر نہیں ہے۔ ممبر کمیشن نے وکیل اکبر ایس بابر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی آپ مجھے سمجھا دیں۔ وکیل اکبر ایس بابر نے کہا کہ پارٹی کے الیکشن کمشنر نے ڈیٹا بیس اپنے پاس رکھا ہوا ہے، الیکشن کمیشن نے ہدایت کی تھی کہ دوبارہ پارٹی الیکشن کروائے جائیں۔ وکیل اکبر ایس بابر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے آرڈر کے بعد دو دن کے اندر الیکشن کروا دیا، بند کمرے میں ایک شخص کو چیئرمین بنا دیا گیا، نہ کاغذات نامزدگی ہوئی نہ سکرونٹنی اور نہ ہی فائنل لسٹ لگی۔ یہ بھی پڑھیں https://sunonews.tv/08/12/2023/pakistan/58425/ ممبر خیبرپختونخوا نے استفسار کیا کہ آپ کس حیثیت سے الیکشن لڑ رہے تھے کیا آپ کی ممبر شپ ختم نہیں ہوچکی؟ جس پر وکیل اکبر ایس بابر نے کہا کہ نہیں ختم ہوئی اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے، ہم الیکشن سے قبل مرکزی آفس معلومات بھی لینے گئے تھے لیکن کسی نے مجھے کاغذات نامزدگی حاصل کرنے نہیں دیئے۔ چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ آپ نے نامزدگی فارم حاصل کرنے کیلئے کیا کوشش کی۔ جس پر وکیل اکبر ایس بابر نے کہا کہ ہم مرکزی دفتر گئے ویڈیو ثبوت بھی جمع کیے گئے ہیں، ہم نے تحریری شکایت نہیں کی لیکن خود وہاں گئے۔ چیف الیکشن کمشنر نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ وڈیو ثبوت دکھا دیں۔ جس پر وکیل اکبر ایس بابر کی جانب سے ویڈیو چلا دی گئی۔ چیف الیکشن کمشنر نے سوال کیا کہ یہ ویڈیو میں کون سی جگہ ہے۔ جس پر وکیل اکبر ایس بابر نے کہا کہ یہ پی ٹی آئی کا جی ایٹ کا مرکزی دفتر ہے۔ ممبر کے پی کے نے ریمارکس دیئے کہ ویڈیوز کو ثبوت تو نہیں مانا جاسکتا۔ جس پر وکیل اکبر ایس بابر نے کہا کہ آپ ان ویڈیوزکی تصدیق کروالیں۔ ممبر پنجاب نے استفسار کیا یہ ویڈیوز کون بنارہا تھا ؟جس پر وکیل اکبر ایس بابر نے کہا کہ ویڈیوز ہمارا بندہ بنا رہا تھا۔ ممبر پنجاب نے سوال کیا کہ ویڈیوز بنانے کی کیا ضرورت تھی، کیا کوئی شک تھا ؟ جس پر وکیل اکبر ایس بابر نے کہا کہ میں نے ویڈیوز ثبوت کے لئے بنوائیں۔ وکیل اکبر ایس بابر نے کمیشن کو بتایا کہ الیکشن کمیشن اس سے قبل بھی ویڈیوز کو بطور ثبوت لے چکا، جس فون سے ویڈیو بنی وہ فون کمیشن کو دے دیتے ہیں وہ فرانزک کرا لے، اگر الیکشن کمیشن ویڈیو فرانزک کروانا چاہتا ہے تو کرسکتا ہے، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق انتخابات نہیں کروائے۔ وکیل اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں موقف اپنایا کہ جن لوگوں نے انٹرا پارٹی انتخابات کی ذمہ داری نہیں نبھائی دوبارہ ان کو اختیار ٹھیک نہیں تھا، دوبارہ انتخابات کا حکم دیا جائے جس میں سب کو موقع ملے، الیکشن کمیشن اس انتخاب کی مانیٹرنگ کروائے۔ الیکشن کمیشن نے اکبر ایس بابر کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آئین یہ نہیں کہتا کہ ہم بار بار انتخابات کا حکم دیں۔ راجہ طاہر نواز عباسی کے وکیل کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ آئین میں لکھا ہے کہ ہر شخص کو الیکشن میں حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے، پشاور میں نامعلوم جگہ پر الیکشن کی بات کی گئی، کچھ لوگ جیل میں ہیں انہیں کاغذات نامزدگی کا پتہ چلا اور جمع کروائے، پورا پراسس جعلی طریقے سے اختیار کیا گیا، اس الیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔ ممبر کمیشن اکرام اللہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 215 واضح ہے دربارہ الیکشن کو بھول جائیں، ویڈیو کو قانونی شہادت کے تحت ثبوت کے طور پر نہیں لے سکتے، ویڈیو میں دکھائے گئے ملازمین کو بطور ثبوت نہیں لے سکتے۔ درخواست گزار راجہ حامد زمان نے موقف اپنایا کہ تحریک انصاف نے جعلی الیکشنز کرا کر توہین الیکشن کمیشن کی ہے، پی ٹی آئی کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کی کارروائی کی جائے، تحریک انصاف کا انتخابی نشان روکا جائے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی۔