ذوالفقارعلی بھٹوکی سزائے موت کیخلاف ریفرنس کی سماعت ملتوی
Image

اسلام آباد: (سنو نیوز) سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکی سزائےموت کیخلاف دائرصدارتی ریفرنس سےمتعلق درخواست پرسماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

دوران سماعت عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا بدقسمتی سے ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی واپس نہیں ہو سکتی، عدالت کے سامنے معاملہ ایک دھبے کا ہے۔ چار تین کے تناسب سے فیصلہ جاری ہوا ، بعد میں ایک جج نے انٹرویومیں کہااس نے دباؤمیں فیصلہ دیا۔

سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا ذوالفقار بھٹو کیس میں نظرثانی کا دائرہ اختیار استعمال ہو چکا، اب کیا طریقہ کار بچا ہے جس کے تحت عدالت کا دائرہ اختیار ہو؟

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل عدالت عظمیٰ کا 9 رکنی لارجر بینچ ریفرنس کی سماعت کر رہا ہے۔

گذشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے آرٹیکل 186 کے سکوپ پر معاونت طلب کی تھی، علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے کیس پر معاونت کے لیے عدالتی معاونین بھی مقرر کیے تھے۔ بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

دوران سماعت رضا ربانی روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالتی معاون ہیں؟ رضا ربانی نے جواب دیا کہ میں عدالتی معاون نہیں لیکن بختاور اور آصفہ بھٹو کا وکیل ہوں، ہم نے کیس میں فریق بننےکی درخواست جمع کرائی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ٹھیک ہوگیا اس درخواست کو دیکھتے ہیں۔

بعد ازاں عدالتی معاون صلاح الدین احمد روسٹرم پر آگئے، انہوں نے بتایا کہ میری اہلیہ نواب احمد قصوری کی نواسی ہیں، عدالت فریقین سے پوچھ لے کہ میری معاونت پر کوئی اعتراض تو نہیں؟

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اہلیہ نے اعتراض اٹھایا ہے تو پھر بڑا سنجیدہ معاملہ ہے، وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ ذوالفقار بھٹو کے ورثا کو بیرسٹر صلاح الدین پر اعتراض نہیں ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میرے والد ڈی جی ایف ایس ایف مسعود محمود کے بھٹو کیس میں وکیل تھے، اگر میرے اوپر بھی کسی کو اعتراض ہو تو بتا دیں، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ پر کسی فریق کو اعتراض نہیں آپ فئیر ہیں اس کا یقین سب کو ہے۔

بعد ازاں مخدوم علی خان نے سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا، ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی بہن نے صدر مملکت کے سامنے رحم کی اپیل دائر کی تھی ، ذوالفقار علی بھٹو نے بذات خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی، ذوالفقار علی بھٹو کو 4 - 3 کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی، بعد میں ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ میں نے دباؤ میں فیصلہ دیا۔

احمد رضا قصوری کے روسٹرم پر آنے کے بعد چیف جسٹس نے ان کو بات کرنے سے روک دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں، پہلے عدالتی معاون کو بات مکمل کرنے دیں، آپ کو ان کی کسی بات پر اعتراض ہے تو لکھ لیں۔

مزید پڑھیں

https://sunonews.tv/12/12/2023/pakistan/59064/

بعد ازاں مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال بھٹو کی پھانسی پر عمل کا نہیں ہے، بدقمستی سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ریورس نہیں ہو سکتی، عدالت کے سامنے معاملہ اس کلنک کا ہے،

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ اگر اس کیس میں عدالت نے کچھ کیا تو کیا ہر کیس میں کرنا ہو گا؟ وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ اس ریفرنس کی بنیاد جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ہمیں ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر نیوز نے انٹرویو کی کاپی بھیجی ہے، انٹرویو شاید ہارڈ ڈسک میں ہے ، سربمہر ہے ابھی کھولا نہیں۔ چیف جسٹس نے اسٹاف کو انٹرویو کی کاپی ڈی سیل کرنے کی ہدایت جاری کردی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے سامنے قانونی سوال کیا ہے؟ کیا ایک انٹرویو کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے کر رائے دے دیں؟ کیا عدالت ایک انٹرویو کی بنیاد پر انکوائری کرے؟ انٹرویو ایک جج کا تھا جبکہ بنچ میں دیگر ججز بھی تھے، کیا ہم انٹرویو سے متعلقہ لوگوں کو بلا کر انکوائری شروع کریں؟۔

ہم صرف ایک انٹرویو کی ویڈیو دیکھ کر تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہوا تھا، آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے، یہ بھی بتا دیں کہ بھٹو ریفرنس میں آخر قانونی سوال پوچھا کیا گیا ہے؟ ایک قانونی سوال جو میں سمجھا ہوں کہ ذوالفقار بھٹو کیس کا فیصلہ غلط تھا، اس کیس میں صرف ایک جج کا انٹرویو آیا دیگر ججز بھی شامل تھے جو خاموش رہے۔

چیف جسٹس نے ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس کو الگ رکھ کر ہر فوجداری کیس میں جہاں سیاست شامل ہو اور انصاف نہ ہو تو عدالت کو دوبارہ سننا چاہیے، آپ نے کہا یہ منفرد کیس ہے باقی کیسز سے الگ عدالت اسے دیکھے، آپ نے کہا کہ اس وقت مارشل لاء تھا تو ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی لگا دی گئی۔

آپ محنت کریں اور بتائیں کے یہ عدالت باقی کیسز کو دوبارہ کیوں نہیں کھول سکتی؟، صدر مملکت بھی باقی کیسز کے ریفرنس بھیجیں، اس کیس میں ایک جج کا انٹرویو ہے باقی کیسز میں کچھ اور موجود ہوگا۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ فوجداری کیسز میں جہاں سیاست شامل ہو انصاف نہ ہو انہیں درست ہونا چاہئے، بھٹو کیس میں نظرثانی کا دائرہ اختیار استعمال ہوچکا اب کیا رہ گیا جو اس عدالت کا دائرہ اختیار ہو؟۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریماکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس انٹرویو میں تو مکمل بات ہی نہیں ہے، یوٹیوب سے اصل پروگرام ہٹا دیا گیا ہے، آپ ایسا کریں نجی ٹی وی والا ڈیٹا کاپی کرا لیں۔

چیف جسٹس نے فاروق نائیک کو ہدایت دی کہ آپ سارے انٹرویو کو دیکھ کر متعلقہ حصہ ہمیں دے دیں، ہم ابھی عدالتی معاون مخدوم علی خان کو سن لیتے ہیں۔

سماعت سے قبل بلاول بھٹو زرداری اور لطیف کھوسہ کی سپریم کورٹ گیٹ میں اچانک ملاقات ہوگئی، وکلا کے رش کے باعث لطیف کھوسہ سپریم کورٹ سے باہر اور بلاول بھٹو اندر جارہے تھے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے ذوالفقار بھٹو پھانسی کیس کیخلاف صدارتی ریفرنس میں 9 عدالتی معاونین مقرر کر دیئے تھے۔ عدالت نے کہا تھا کہ صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے پر فوجداری اور آئینی معاملات پر معاونت کیلئے عدالتی معاونین درکار ہوں گے، عدالت کے پہلے سے دس مقرر کردہ عدالتی معاونین میں سے 6 کا انتقال ہو چکا اور کچھ پیروی نہیں کرنا چاہتے۔