عام انتخابات اور بلوچستان کی سیاسی صورتحال
Image

سنو الیکشن سیل:(رپورٹ، فصیح الرحمان) پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ان کے آج بھی مسلم لیگ نواز سے قریبی تعلقات ہیں اور ان سے اتحاد ہو سکتا ہے۔

مولانا فضل الرحمان ایک طرف مسلم لیگ ن کو اپنے قریب شمار کرتے ہیں اس کے ساتھ وہ اقتدار کے گھوڑے پر تن تنہا سواری کی خواہش بھی برابر رکھے ہوئے ہیں ۔ اس بات کا اندازہ اس وقت لگایا گیا جب صحافیوں کے اس سوال پر کہ اگلا وزیر اعظم کون ہوگا ؟ تو مولانا نے بنا سوچے جھٹ سے جواب دیاں کہ ’میں‘۔ ماضی کی طرح اس دفعہ بھی ملک کی بڑی سیاسی پارٹیاں ہی آپس میں سمجھوتہ کر کے یا الگ الگ اقتدار کی خواہاں ہیں ۔

ملک میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے بلوچستان سے مجموعی طور پر 2669 امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

بلوچستان کی خواتین انتخابات میں روایت، جمہوریت اور ووٹنگ کی جدوجہد:

بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ، متنوع ثقافتوں، روایات اور تاریخوں سے مالا مال ہے۔ پھر بھی، اس تنوع کے نیچے، ایک مشترکہ دھاگہ بلوچستان کی خواتین کو باندھتا ہے۔ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کی جدوجہد، انتخابی عمل سے آگاہ ہونے کے باوجود خواتین کی ایک قابل ذکر تعداد اپنے آپ کو ووٹ ڈالنے سے قاصر ہے۔ اس راز سے پردہ اٹھانے کے لیے، ہم صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت مختلف اضلاع میں خواتین کی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ یونیورسل الیکشنز (یو ڈی پی) کے مطابق گذشتہ عام انتخابات میں 60 فیصد پاکستانی خواتین نے ووٹ نہیں دیا۔

بلوچستان کے صوبائی کمشنر نے خود اعتراف کیا تھا کہ شناختی کارڈز نہیں ہیں اور 500,000 سے زائد خواتین کے ووٹوں کا اندراج نہیں ہو سکتا- مزید یہ کہ صوبے میں خواتین کا ٹرن آؤٹ بھی بہت کم رہا ۔

بلوچستان میں 2018 ء کے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں خواتین ووٹرز کے ٹرن آؤٹ کا حلقہ وار فیصد جمہوری عمل میں صنفی شرکت کی ایک اہم تصویر کو ظاہر کرتا ہے۔ 1,899,565 کے کُل ووٹوں کے ساتھ، انتخابات میں مجموعی طور پر 45.29 فیصد ووٹ ڈالا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آبادی کا ایک اہم حصہ انتخابی عمل میں سرگرم عمل ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعدادو شمار کے مطابق عام انتخابات (2024)میں رجسٹرڈ خواتین ووٹر کی تعداد (2355738) ہے جو کل ووٹرز کا 43 فیصد بنتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

https://sunonews.tv/19/12/2023/pakistan/60411/

الیکشن کمیشن بلوچستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی کی 16 جنرل نشستوں پر 631 امیدواروں میں 19 خواتین بھی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ تین خواتین امیدوار این اے 255 صحبت پور کم جعفرآباد کم اوستہ محمد کم نصیرآباد کی نشست پر سامنے آئی ہیں۔ جس میں اب تک رقیعہ سلطانہ ، جن کا تعلق ضلع سبی کی تحصیل لہڑی سے ہے۔ ڈسٹرکٹ نصیر آباد کی تحصیل چتر سے ماجدہ ابڑو اور امیر زادی ضلع صحبت پور سے الیکشن میں حصہ لیں گی ۔

بلوچستان اسمبلی کی خواتین کی 11 مخصوص نشستوں پر 123 امیدواروں جبکہ صوبائی اسمبلی کی 3 مخصوص نشستوں پر 10 خواتین سمیت 67 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ سب سے زیادہ چار خواتین امیدوار کوئٹہ سے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 43 پر ہیں۔

بلوچستان سے اہم امیدوار:

جمعیت علما ئےاسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان پہلی بار بلوچستان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 پشین پر انتخاب لڑیں گے۔ اس دفعہ کے الیکشن میں مولانا بھی بلوچستان کو اپنی جائے پناہ سمجھتے ہیں ، وہ بھی این اے 265 پشین سے قسمت آزمائیں گے۔

یاد رہے اس کے ساتھ ہی مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ ن سے الحاق بھی کر سکتے ہیں، ان کاکہنا ہے کہ مسلم لیگ ن ان کی قریب ترین جماعت ہے ۔

پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی تین حلقوں این اے 263 کوئٹہ سٹی، این اے 265 پشین، 266 چمن کم قلعہ عبداللہ پر امیدوار ہیں۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ 259 کیچ کم گوادراور تربت شہر سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 26 پرالیکشن لڑیں گے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کے تین حلقوں پر امیدوار ہیں۔ وہ آبائی ضلع خضدار سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 256، کوئٹہ کے حلقہ این اے 264 اورخضدار کے علاقے وڈھ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر کاغذات نامزدگی جمع کراچکے ہیں۔

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری این اے256 خضدار پر امیدوار ہیں ۔سابق وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے پی بی 23 آواران، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے پی بی 37 مستونگ پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

پیپلز پارٹی میں شمولیت کرنے والے سابق نگراں وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی پی بی 10 ڈیرہ بگٹی سے انتخابی میدان میں اترے ہیں۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی سمیت بلوچستان عوامی پارٹی کے 6 سینیٹر بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔

چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے این اے 260 چاغی کم نوشکی کم خاران کم واشک اوراپنے آبائی ضلع چاغی کی نشست پی بی 32 پرکاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ بی اے پی (بلوچستان عوامی پارٹی ) کے سربراہ نوابزادہ خالد حسین مگسی این اے 254 جھل مگسی کم کچھی کم نصیرآباد کی نشست پر انتخاب لڑیں گے۔

سینیٹرکہدہ بابر نے این اے 259 کیچ کم گوادر، پی بی 24 گوادر، سینیٹر نصیب اللہ بازئی پی بی 38 کوئٹہ I، سینیٹر منظور احمد کاکڑ پی بی39 کوئٹہ II، سینیٹر پرنس آغا عمر احمد زئی نے این اے 264 کوئٹہ تھری، پی بی 44 کوئٹہVII اور پی بی 46کوئٹہIX جبکہ اسپیکر جان محمد خان جمالی پی بی 17 اوستہ محمد پر امیدوار ہیں۔

سربراہ حق دو تحریک مولانا ہدایت الرحمان بلوچ بھی اس پر امید ہیں کہ بلوچستان کے عوام پر ڈاکا اب کی بار وڈیروں کو نہیں ڈالنے دیں گے ، لوگو ں کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ وہ اس دفعہ مولانا کو موقع دیں گے تا کہ اپنے حقوق کی جنگ اپنے اندر موجود نمائندے کو ہی دیں گے ۔

حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان این اے 258 کیچ کم پنجگور ، این اے 259 کیچ کم گوادر اورپی بی 24 گوادرپر امیدوار ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان لسبیلہ اور آواران سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 257، جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ نوابزادہ شاہ زین بگٹی این اے 263 ڈیرہ بگٹی کم کوہلو کم بارکھان کم زیارت کم ہرنائی پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر سردار یار محمد رند این اے 254 کچھی کم جھل مگسی کم نصیرآباد اور پی بی 12 کچھی، جے یو آئی (جمیعت علمائےاسلام )بلوچستان کے امیر مولانا عبدالواسع پی بی 3 قلعہ سیف اللہ، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ خوشحال کاکڑ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 251 ژوب کم قلعہ سیف اللہ کم شیرانی اوراین اے 265 پشین پر امیدوار ہیں۔

ذرائع آمدن:

بلوچستان کے 40 فیصد لوگوں کاذرائع آمدن مال مویشی ہے۔ اس کے علاوہ زراعت ، پھل ، سبزیوں کی کاشت کاری سے بہت سے لوگوں کا معاش چلتا ہے ۔ سوئی کے مقام سے نکلنے والی سوئی گیس پورے ملک میں گیس کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں ۔ معدنیات ، قیمتی پتھر ، جیسے قدرتی وسائل سے بلوچستان کی سرزمین مالامال ہے ۔

مسائل:

ویسے توپورا صوبہ ہی مشکلات میں جکڑا ہوا ہے مگر سیاسی عدم استحکام سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ نوابوں کی اجارہ داری کے باعث بلوچستان کے مسائل میں کمی لانے کی بجائے آئے دن اس میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ بے روزگاری، دہشت گردی، پینے کا صاف پانی، صحت کی سہولیات، کرپشن، منشیات فروشی سر فہرست مسائل ہیں۔

سڑکوں کی خستہ حالی، گیس، بجلی کا مسئلہ، دیہی علاقوں میں صحت بالخصوص لیڈی ڈاکٹرز کی عدم دستیابی، تعلیم سہولیات کا فقدان جیسے مسائل کا سامنا ہے ۔ بلوچستان کے عوام کا کہنا ہے کہ صوبہ بلوچستان کو ہمیشہ سے ہی سوتیلے بیٹے کی طرح دیکھا جاتا رہا ہے ۔