ہمارے انقلابی دوست
Image
تحریر: حماد حسن انقلابی صاحب حسب معمول دروازہ کھٹکٹائے یا اجازت لیےبغیر کمرے میں داخل ہوئے اور پھر کرسی پر بیٹھنے کے بجائے میرے سامنے والی ٹیبل پر چڑھ کر ٹانگیں لٹکائیں۔ پہلے میرے اوٹ پٹانگ کالموں اور احمقانہ تجزیوں پر کلاس لی اور پھر سیاست پر اپنے ”عالمانہ تبصروں“ سے نوازنے لگے۔انقلابی صاحب عشرہ بھر پہلے اچانک سیاست میں کود پڑے تھے اور گالیوں بھرا بیانیہ اُٹھا لیا تھا جسے موصوف نے انقلاب کا نام دیا اور خود انقلابی ٹھہرے۔سیاست سے پہلے بھی انقلابی صاحب اپنی “شاندار بصیرت اور فیصلوں “ کے سبب مسلسل کامیابیاں سمیٹتے رہے، مثلاً میٹرک کے آدھے پرچے دے کر درمیان میں سب کچھ اس لیے چھوڑا تھا کیونکہ محلے کے مولوی صاحب سے اچانک متاثر ہوئے اور دین کو دنیا پر فوقیت دیتے ہوئے ٹین کے بکسے پر کجھور اور تلوار کی گلکاری کر کے ایک مدرسے کی راہ لی ۔علم کی تشنگی صرف 27 دن بعد بجھ گئی تو پھر سے رخت سفر باندھا اور مدرسہ چھوڑ کر گالیاں دیتے ہوئے واپس گاؤں کی راہ لی،اب اگلا مرحلہ "کاروباری کامیابیوں” کا تھا۔ گھر کے قریب ہی مرغیوں کا کاروبار شروع کیا جس میں حسب توقع نقصان اس لیے ہوا کہ ایک دن دوکان کو تالا لگا کر دوستوں کے ساتھ سیر سپاٹےکے لئے نکلے اور مرغیوں کو بے یار و مددگار چھوڑ گئے۔ جب واپس آکر دوکان کھولی تو لوگ ناک پر رومال رکھ کر دکان سے دور جانے اور کُتے قریب آنے لگے۔اس کے بعد بھینسوں کی تجارت سے ”بارگین“ کھولنے تک کاروباری تباہیوں کے جھنڈے گاڑے۔ ایک دن اچانک پتہ چلا کہ موصوف دُبئی فتح کرنے نکلے ہیں۔روای کا بیان ہے کہ دبئی پہنچنے کے چند دنوں بعد انقلابی صاحب ایک دن کسی سٹور میں ایک عربی سے لڑ پڑے اور گھمسان کا رن پڑا ،لڑائی اتنی شدید تھی کہ سٹور کا سارا سامان ادھر اُدھر بکھر گیا، اتنے میں پولیس آئی اور انقلابی صاحب کو جکڑ لیا لیکن گھبرانے کی بجائے موصوف نے اپنے ساتھی سے کہا کہ مجھے چونکہ عربی نہیں آتی اس لئے ان پولیس والوں سے پوچھ لو کہ صاف صاف بتا دیں کہ کتنے پیسوں پر بات چلے گی اور یہ بھی بتا دو کہ میرے ماموں کا دوست ایس ایچ او ھےوہ تو شکر ہے کہ ساتھی کئی سال سے دبئی میں تھا اور وہاں کی پولیس اور معاملات سے واقف تھا اس لیے انقلابی صاحب کا پیغام ترجمہ کرنے سے گریز کیا ورنہ بگڑا ہوا معاملہ مزید بگڑ جاتا ۔ قصہ مختصر موصوف تین ہفتے جیل میں گزارنے کے بعد ڈی پورٹ کر دیے گئے۔واپسی پر ایئرپورٹ سے گھر آنے کی بجائے تبلیغ کے لئے چلے گئے، چند دن بعد لوٹ آئے تو سی ڈیز کی دوکان کھول کر ایک نئے نقصان بخش منصوبے کی بنیاد رکھ لی۔انقلابی صاحب کاروباری حوالے سے اتنے وژنری ہیں کہ جب اللہ تعالٰی نے چاند سا بیٹا عطا کیا اور میں مٹھائی کا ڈبہ لے کر مبارکباد دینے گیا تو گرم جوش معانقہ کرنے کے بعد کہا کہ دُعا کریں کہ میں اپنے بیٹے کو قرآن پاک کا قاری بناؤں تاکہ گھڑیاں اور موبائل ٹھیک کرنے کا کام سیکھے۔ میں نےحیرت کے ساتھ انہیں دیکھا تو میری ناسمجھی اور بے وقوفی پر خوب ھنسنے کے بعد سنجیدہ ہو کر کہا کہ آپ کسی مارکیٹ کا سروے کراکر دیکھ لیں اگر دس میں سے آٹھ دکانیں قراء ( قاری حضرات) کی نہ ہوں تو مجھے بھی اپنی طرح بے وقوف ہی سمجھیں ۔انقلابی صاحب تقریبًا ایک عشرہ پہلے اچانک سیاست میں کود پڑے اور اپنی ہم مزاج جماعت سے وابستگی اختیار کرلی۔ ان کے گالیانہ تبصرے اب روز کا معمول ہے جس کے ہم سب دوست عادی ہو چکے ہیں اور بلاناغہ یہ تبصرے سننے بھی پڑتے ہیں. ایک دن فرمانے لگے کہ کورونا ڈرم رائیونڈ سے مریم نواز کے حکم پر مختلف شہروں میں پہنچا کر انڈیل دیے گئے تھےتاکہ کورونا پھیلے اور کرپٹ لوگ احتساب سے بچ جائیں ۔ مزید فرمایا کہ معیشت کو نواز شریف نے تباہ کیا تو میں نے دخل در معقولات کرتے ہوئے فقط اتنا کہا کہ نواز شریف کے دور میں تو جی ڈی پی پانچ اعشاریہ آٹھ پر پہنچ گیا تھا جو اب منفی میں جارہا ہے جبکہ سٹاک ایکسچینج کا ہندسہ 53 ہزار کو چھو چکا تھا جو اب 34 ہزار پر آچکا ہے جبکہ۔۔ میری بات کاٹ کر حسب معمول نوازشریف اور دوسرے سیاسی لیڈروں کو پانچ سطری لمبی گالیاں دینے کے بعد کہا کہ جب تک آپ لوگ لفافے لیتے رہیں گے تب تک یہی باتیں ہی کریں گے۔چونکہ انقلابی صاحب ہمارے پرانے اور مخلص دوست ہیں اس لئے غصہ ہونے کی بجائے میں خاموشی کے ساتھ ان کے فرمودات سننے پر توجہ دینے لگا ۔ دانش و بصیرت کے دریا بہاتے ہوئے مزید فرمایا کہ یہ جی ڈی پی ان لوگوں نے بنائی ھےجنھوں نے نواز شریف سے پیسے لئے فارن فنڈنگ کیس کے معاملے پر مجھے اپنی باخبری سے مستفید کرتے ہوئے فرماگئے کہ دراصل یہ چوری کا وہ پیسہ ہے جو فارن میں پڑا ہے لیکن خان صاحب چھوڑے گا نہیں۔چٹکی بجاتے ہوئے آصف زرداری ، مولانا فضل الرحمٰن ، اچکزئی اور اسفند یار ولی کو (ثبوت کے بجائے صرف گالیوں کی زور پر ) غدار بھی ثابت کر گئے۔شیر افضل مروت ، شیخ رشید ، زرتاج گل اور علی آمین گنڈا پور کے حیرت انگیز وژن اور قابلیت سے بھی آگاہ کر گئے یہاں تک کہ گنڈاپور صاحب کی مونچھوں اور شیخ رشید کی وگ کو بھی ایشیا میں سب سے بہترین قرار دیا جبکہ عادل راجہ سے شہباز گل تک جیسے نابغوں کی دیانت داری اور اخلاص کا تذکرہ بھی ایک عالمانہ انداز سے کر گئے ۔ مجھے بار بار لفافے لینے سے باز آنے کی تلقین کرتے اور عذاب سے ڈراتے ہوئے میری اخلاقی اور دینی تربیت پر بھی دردمندی کے ساتھ توجہ دی ۔یہ خبر بھی دی کہ خان صاحب سوکھی روٹی پر سالن رکھ کر کھاتے ہیں ۔اس لئے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھے جس سے کورونا میں کمی آئی۔ اس طوفاں خیز سکینڈل کی گرہیں بھی کھول دیں کہ ریکوڈک کا سارا سونا نواز شریف رانا ثناءاللہ کے ذریعے دُبئی لے گئے ہیں ۔ الطاف حسین کی قتل و غارت کے پیچھے آصف زرداری کا ھاتھ بھی تلاش کر گئے، بی آر ٹی ناکامی اور کرپشن کا ذمہ دار اسفندیار ولی کو ٹھرایا جبکہ مولانا فضل الرحمان کے حصے میں معیشت کی تباہی آئی کیونکہ ایرانی پٹرول سمگلنگ میں ان کا حصہ ھے، رائیونڈ میں ماسک ذخیرہ کرنے اور بنی گالہ میں آٹے کی کمی اور چھت ٹپکنے سے بھی آگاہ کر گئے ۔اس راز کو بھی طشت از بام کیا کہ 9مئی کا واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں بلکہ یہ تم جیسے بکاو صحافیوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ ھے کیونکہ آپ لوگ نواز شریف سے پیسے لیتے ہیں مجھے انقلابی صاحب کی ان “عالمانہ تبصروں“ اور ”دانشوارانہ باخبری“ میں دلچسپی بہت تھی لیکن کچھ "جاہل مہمانوں ” نے آنا تھا اور ا انقلابی صاحب کو "خطرے کے پیش نظر” رُخصت کرنا ضروری تھا ، اس لئے با عزت طریقے سے انہیں جبرًا رخصت دے دی اور انہوں نے سیڑھیوں سے اُترنے کی بجائے کھڑکی سے گلی میں چھلانگ لگا دی اور ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا کہ باقی خبروں کے لیے تمہیں کل تک انتظار کرنا پڑے گا۔