Homecolumnسیاسی لوٹے:پرانی کہانی نئے کردار، وہی فلم

سیاسی لوٹے:پرانی کہانی نئے کردار، وہی فلم

Dr Atif Asharf

سیاسی لوٹے:پرانی کہانی نئے کردار، وہی فلم

تحریر: ڈاکٹر عاطف اشرف

لوٹے بھی سوچتے ہوں گے کہ ان کے متعلق لوگ کیا سوچتے ہیں، پھر سوچتے ہوں گے کہ جتنے منہ اتنی باتیں کیونکہ پلاسٹک کےلوٹے کی طرح یہ بھی اپنا منہ اس پارٹی کی طرف ہی رکھتے ہیں جہاں سے طاقت کے مضبوط سگنلز آرہے ہوں اور صرف مفادات کی فریکوئنسی ہی میچ کرتی ہو!

پاکستانی “سیاہ ست” میں لوٹا کریسی ایک ڈاکٹرائن بن چکا ہے،وہ ڈاکٹرائن جس کی انفیکشن سیاسی ڈاکٹر بھی دور نہ کر سکے۔ اگر ہم سیاسی لوٹوں کی تاریخ کھنگالیں تو ہندوستان کے پہلے لوٹے ایک ڈاکٹر تھے۔ پورا نام ڈاکٹر شیخ محمد عالم، عرف ڈاکٹر عالم لوٹا۔ڈاکٹر عالم لوٹا کا تعلق سرگودھا سے تھا اور وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھےلیکن پارٹیاں بدلنے میں مہارت رکھتے تھے۔ پہلے قائد اعظم کی مسلم لیگ میں شامل ہوئے وہاں سے منہ کی کھانا پڑی توانیس سو انتیس میں آل انڈیا مسلم نیشنلسٹ پارٹی کی بنیاد ڈال لی،وہاں سے بھی جب دل بھر گیا تو کانگریس کو جوائن کرلیا یہاں عزت راس نہ آئی تو پھر مولانا ظفر علی خان کی مجلس اتحاد ملت میں شامل ہوگئے پھر انیس سو پینتالیس میں خاکسار پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ لیا۔لیکن اتنی پارٹیاں بدلنے کے بعد ان کے متعلق لوگوں کی سوچ بھی بدل چکی تھی۔ ان کا نام عالم لوٹا مشہور ہونا شروع ہو گیا۔

اب سوال یہ پہدا ہوتا ہے کہ لوٹے کی اصطلاح سب سے پہلے کس نے اور کیوں استعمال کی؟ تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو مختلف حوالوں سے کہانی بڑی دلچسپ بنتی ہے۔ لوٹے کی اصطلاح ایجاد کرنے والے ایک صحافی تھے اور ان کا نام عطا حسین میر کاشمیری تھا۔عطا حیسن زمیندار اخبار کے صحافی تھے لیکن کسی وجہ سے ڈاکٹر عالم نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے انہیں نوکری سے نکلوا دیا۔ جس کے نتیجے میں غصے سے لال پیلے عطا حسین نے ڈاکٹر صاحب کے خلاف ایک عدد مضمون لکھ مارا، جس کا عنوان تھا “عالم لوٹا”۔

اس مضمون نے ہر طرف آگ لگا دی، ڈاکٹر عالم جہاں جاتے لوٹا لوٹا کے نعرے لگتے، ان کا استقبال لوٹوں سے ہوتا۔لاہور کے علاقے مزنگ میں ان کی رہائشگاہ پر بھی لوگوں نے لوٹے ٹانگ دیے، یہی نہیں پولنگ سٹیشنوں پر بھی لوٹے ٹانگے جاتے تھے۔ ڈاکٹر کو پورا عالم اب عالم لوٹا کے نام سے جانتا تھا، انھوں نے انیس سو پینتالیس کے انتخابات میں شکست کھائی اور پاکستان بننے سے تین ماہ پہلے اس دنیا سے گزر گئے۔

ڈاکٹر عالم تو چلے گئے مگر ان کی طرف منسوب کی گئی اصطلاح “لوٹا” سیاست میں لوٹ آئی اور ابھی تک زندہ و جاوید ہے۔فرق صرف یہ پڑا کہ پہلے ایک لوٹا تھا اب لوٹوں اور نوٹوں کی بارش ہے۔مسلم لیگ جو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی لوٹا کریسی کا شکا رہوئی۔ مسلم لیگ ق ، ن ، ف شاید اگلے کچھ سالوں میں کئی اور حروف تہجی بھی لوٹے کو پیارے ہو جائیں۔ پاکستان تحریک انصاف میں لوٹوں کی بہار آئی پھر برسات ہوئی۔ الیکشن دو ہزار چوبیس سے پہلے کچھ لوٹے نئی پارٹی کو”استحکام” دینے لگے اور کچھ کو” ن” لگ گیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے لوٹے لوٹے کے نعرے لگتے تھے، اب لوٹے دوسری پارٹی کے نعرے لگاتے ہیں۔ پہلے لوٹا کھوٹا سکہ بن جاتا تھا، پھر سکہ رائج الوقت بن گیا۔ پہلے لوٹوں کو کوئی لیتا نہیں تھا، اب لوٹے بنا کر لئے بھی جاتے ہیں موسم کی مناسبت کے حسب ضرورت استعمال بھی ہوتے ہیں، کبھی کبھار تو یہی آئٹمیں الیٹیبکز بھی بن جاتی ہیں۔

پارٹی تبدیل کرنے والا تو لوٹا لیکن پارٹی تبدیل کرکے پرانی پارٹی میں واپس آنے والے کا الگ ہی لیول ہے۔ مشہور ضرب المثل ہے کہ صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بُھولا نہیں بھولا کہتے ہیں۔ یہی بات ایسےلوٹوں پر بھی فٹ بیٹھتی ہے۔دوضربیں کھا کر لوٹا پھر کھوٹا سا بن جاتا ہے، کیونکہ خاک چھاننے کے بعد پہلی پارٹی میں سیٹ تو مل جاتی ہے لیکن عوام میں عزت نہیں ملتی۔رہی سہی ساکھ بھی راکھ ہو جاتی ہے۔ لیکن ایسے لوٹون کے لئے عزت تو آنے جانے والی چیز ہے کیونکہ ان کی نظر میں ایک سیاستدان کو لوٹا ہی ہونا چاہیے۔ اس سوچ کو وہ اس سیاسی نظریے سے باندھ کر صاف ہو جاتے ہیں کہ “سیاست میں کوئی دائمی دشمن نہیں ہوتا”۔

ایک مشہور بھارتی فلم کا شعر ہے ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا،میری کشی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا۔ وطن عزیز کی سیاست میں کچھ لوٹوں کی یہی کیفیت ہے۔ پارٹی چھوڑ کر جب انہیں احساس ہوتا ہے کہ ووٹر نے بھی اسے چھوڑ دیا ہے تو پھر اپنی کشتی کو کم ووٹوں کے پانی میں ڈوبتا دیکھتے ہیں لیکن اپنے چلو میں بھرا پانی نظر نہیں آتا ۔

سیانے کہتے ہیں کہ اقتدار کے پانی کئے بغیر سیاسی مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی، اسی طرح اقتدار کی ضرورت بھی لوٹوں کی ماں بن کر انہیں نت نئی سیاسی پارٹیوں کی گود فراہم کرتی ہے، تاکہ یہ لوٹے اسی گود میں پرورش پا کرجب تیرنے کے قابل ہو جائیں تو اپنی سیاست کوطاقت کے پانی میں زندہ رکھ سکیں اور الیکشن ہار کر بھی جیت کے جعلی ہار پہن کر سیاست کو ہی ہرا دیں۔ لوٹے بھی سوچتے ہوں گے کہ ان کے متعلق لوگ کیا سوچتے ہیں، پھر سوچتے ہوں گے کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔کیونکہ پلاسٹک کےلوٹے کی طرح یہ بھی اپنا منہ اس پارٹی کی طرف ہی رکھتے ہیں جہاں سے طاقت کے مضبوط سگنلز آرہے ہوں باقی کس طرف سے کیا آواز اور کیا سگنلزآرہے ہیں انہیں سنائی ہی نہیں دیتے، کیونکہ مفادات کی فریکوئنسی ہی میچ نہیں کرتی۔ لیکن محسوس یہ برابر کرتے ہیں، پلاسٹک کے لوٹے کی طرح تین سو ساٹھ ڈگری کے زاویے پر گھوم سکتے ہیں،اور جہاں فریکوئنسی بہتر ہوں وہیں پر اپنی سیاست کی آوازبلند کردیتے ہیں۔

ایک صورت میں سیاسی لوٹے پلاسٹک کے لوٹے سے بھی گئے گزرے ہوتے ہیں۔ پلاسٹک کے لوٹے کا بھی ایک اصول ہوتا ہے کہ اگر پانی کا پریشر ایک خاص لیول سے بڑھ جائے تو برداشت کرتے ہیں، پریشر کو ٹوٹی کے ذریعے ریلیز کرتے رہتے ہیں لیکن سیاسی لوٹوں کا تونیکسٹ لیول ہے یہ پریشر آنے ہی نہیں دیتے، جیسے ہی دباو بڑھنے لگےیہ “دباؤ “کے ساتھ ہی ہاتھ ملا لیتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اچھا بھلا سیاستدان لوٹا کیسے بنتا ہے تو اس کا جواب بہت ہی آسان ہے۔ایک تناظر میں گاجر اورچھڑی کی حکمت عملی خوب کام کرتی ہے۔ مخصوص حالات میں لوٹے بن جاو ورنہ سیاست سے لوٹ جاو۔ حالیہ الیکشن میں لوٹوں کی بہارآئی، ووٹر عزت کرے نہ کرے لیڈرز لوٹوں کو خوب ویلکم کرتے رہے۔ انہیں گھر بلاتے رہے ان کے گھر جاتے رہے۔ ان سے بہت سے کام نکلواتے رہے کیونکہ ان کا اپنا کام جو نکل چکا تھا۔ لیکن کام نکلنے اور نکالنے کے باوجود یہ لوٹے سیاست سے نہیں نکلتے ، کیونکہ اگر یہ نکل گئے تو سیاہ ست سفید ہو جائے گی اور سفید رنگ توشفاف ہوتا ہے اور اگر پورا سسٹم شفاف ہو گیا توان لوٹوں کو چلانے والی ملک کی طاقتور اشرافیہ کا کیا بنے گا؟ اس لئے جب تک نظریہ ضرورت رہے گا لوٹوں کی ضرورت بھی رہے گی۔ نئے کرداروں کے ساتھ پرانے تجربے ہوتے رہیں گے اور رزلٹ وہی رہے گا جو ستتر سال سے نظر آرہا ہے۔ سیاسی استحکام آئے گا اور نہ ہی معاشی استحکام، بجلی کا بل جھٹکے لگاتا رہے گا، گیس ارمان جلاتی رہے گی پٹرول زخمو ں پر چھڑکاؤ کرتا رہے گا، آئی ایم ایف کے ٹیکے لگتے رہیں گے، قانون کی خلاف ورزی ہوتی رہے گی، جمہوریت صرف ہاتھی کے دانت کی طرح رہ جائے گی جو صرف نظر آتے ہیں، کھانے والی دانت ملک کو کھاتے رہیں گے اور اعتماد کے فقدان کےباعث عوام اور سیاستدانوں میں خلیج بڑھتی رہے گی۔اس نظام کی بنیاد جمہوریت ہے اور اگر جمہوریت میں لوٹوں اور غیر جمہوری عناصر کی ملاوٹ کردی جائے اورپھر آئین اور قانون کی حدود پامال کرنے والوں کا کڑا احتساب بھی نہ ہو تو پھرپاکستان کو بنانا ریپبلک بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سیاسی پارٹیوں میں لوٹے آتے جاتے رہیں گے لیکن نظام کو لوٹا کریسی سے نکالنا ہوگا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ عالم لوٹا سے شروع ہونے والا سفرپورے سیاسی نظام کو ہی کھوٹا کردے۔

اللہ میرے ملک کی حفاظت فرمائے۔

Share With:
Rate This Article