ترکیہ کی اسرائیل کے ساتھ تجارت میں اضافہ
Image

انقرہ: (سنو نیوز) دسمبر 2023ء میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات میں 35 فیصد اضافے کو حکومت مخالف میڈیا نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

حزب اختلاف کے حامی میڈیا میں اسرائیل کے ساتھ ترکیہ کے تجارتی تعلقات پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے اور موضوع بحث گذشتہ سال دسمبر میں اسرائیل کو ترکی کی برآمدات کے حجم میں 35 فیصد اضافہ ہے۔

رجب طیب اردگان کی حکومت کی طرف سے غزہ میں فوجی آپریشن کی شدید مذمت کے باوجود تجارتی تعلقات کے تسلسل کے بارے میں تنقید حکومت کے مخالفین اور بعض قدامت اور اسلام پسند شخصیات دونوں کی طرف سے سنی جاتی ہے۔

4 جنوری 2024ء کو قدامت پسند حزب اختلاف کے اخبار "کرار" کی مرکزی سرخی تھی، ’’اسرائیل کو برآمدات میں اضافہ، کمی نہیں‘‘۔ ماہر اقتصادیات ابراہیم کافچی نے اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ دسمبر میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات پچھلے مہینے کے مقابلے میں 34.8 فیصد زیادہ تھیں اور 430.6 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ انہوں نے تر کیہ کی وزارت تجارت کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "دسمبر میں اسرائیل کو ہماری برآمدات میںنمایاں اضافہ ہوا"۔

انہوں نے گذشتہ سال 7 نومبر کو وزیر تجارت عمر بلات کے اس دعوے پر بھی تنقید کی کہ ترکیہ کی اسرائیل کے ساتھ تجارت میں گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 7 اکتوبر سے 50 فیصد کمی آئی ہے۔ بلات نے یہ دعویٰ اس وقت کیا جب بہت سے لوگوں نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

سیکولر اپوزیشن کے حامی" سوزو اخبار" نے 5 جنوری کو اپنی مرکزی سرخی میں لکھا کہ ’’وہ سڑکوں پر اسرائیل کی مذمت کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی اسرائیل کے ساتھ تجارت کا حجم بڑھاتے ہیں‘‘۔ایسا لگتا ہے کہ سرخی ایک ایسے مظاہرے کی طرف اشارہ کر رہی تھی جو فلسطینیوں کی حمایت میں حکومتی اہلکاروں اور حکومت کے حامی میڈیا اور شخصیات کی حمایت میں منعقد کیا گیا تھا۔ مرکزی استنبول میں یکم جنوری کے مظاہرے میں تقریباً 250,000 افراد شریک تھے۔

ترک حکام نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی پر کڑی تنقید کی اور ترک صدر رجب طیب اردگان نے اسرائیل پر "نسل کشی" کا الزام لگایا ہے۔ حکومت مخالف بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اورینسل اخبار نے "اسرائیل کے لیے پیداوار جاری رکھنے" کے باوجود یکم جنوری کے احتجاج کی حمایت کرنے پر ایسوسی ایشن آف انڈیپنڈنٹ انڈسٹریلسٹ اینڈ مرچنٹس اور یونین آف سٹیل ایکسپورٹرز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

تاہم ترکیہ کی وزارت تجارت اس دعوے سے متفق نہیں ہے۔ 4 جنوری کو ترکیہ کی وزارت تجارت نے ایک بیان جاری کیا جس میں اسرائیل کے ساتھ تجارت میں اضافے کی خبروں کی تردید کی گئی اور دعویٰ کیا گیا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو برآمدات کا ایک بڑا حصہ اسرائیل سے گزرنا چاہیے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ "فلسطینی علاقوں کو بھیجے جانے والے تمام سامان کو اسرائیل کے نام سے اسرائیلی کسٹم اور بندرگاہوں سے گزرنا چاہیے۔"

یہ بھی کہا گیا کہ 2022 ء کے اسی عرصے کے مقابلے میں 7 اکتوبر سے 31 دسمبر تک اسرائیل کے ساتھ تجارت کا حجم 39 فیصد کم ہوا اور اس عرصے کے دوران اسرائیل سے درآمدات میں 58 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اگرچہ وزارت نے پوری مدت کے لیے نمبر جاری کیے، لیکن بیان میں دسمبر کے اضافے کا ذکر نہیں کیا۔ وزارت تجارت اور ترکیہ کے شماریاتی دفتر کے اعداد و شمار بھی 7 اکتوبر سے 31 دسمبر تک کے عرصے سے متعلق کوئی خاص اعداد و شمار فراہم نہیں کرتے ہیں۔