پروم: پاکستان کا پسماندہ ترین علاقہ
Image

سنو الیکشن سیل:(رپورٹ، مرید آسکانی) ماسٹر احمد علی کی آنکھیں نم ہیں اور وہ خاموش کھڑ ے ایک خستہ حال عمارت کو گھور رہے ہیں۔ یہ عمارت ضلع پنجگور کا سب سے بڑا دیہی تحصیل پروم میں واقع رورل ہیلتھ سنٹر (آر ایچ سی) کی ہے۔ یہ آر ایچ سی تحصیل پروم کا واحد مرکز ِصحت ہے جو تباہ حالی کا شکار ہوگیا ہے۔

پروم کو اگر پاکستان کا پسماندہ ترین علاقہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ انسانی بنیادی سہولتوں سے محروم یہ علاقہ ضلع پنجگور کا سب سے بڑا اوربدحال تحصیل ہے جو شہر کےمغرب میں ایران بارڈر کے ساتھ واقع ہے۔

حالیہ مردم شمار کے مطابق پروم کی آبادی لگ بھگ 35 ہزار ہے ۔ 2008 ء اور 2013 ء کے الیکشن میں پروم کو پنجگور کے حلقہ پی بی 43 میں شامل کیا گیا تھا جبکہ 2018 ء کے الیکشن میں پروم کوحلقہ پی بی 44 آواران کم پنجگور میں شامل کیا گیا تھا۔

2008 ء میں پنجگور کے ایم پی اے میر اسد اللہ بن گئے تھے، جن کا تعلق بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) سے ہے اور 2013 ء میں نیشنل پارٹی کے میر رحمت صالح ایم پی اے کی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔

اسی طر ح 2018 ء کے الیکشن میں پی بی 44 سے بلوچستان عوامی پارٹی کےعبدالقدوس بیزنجو ایم پی اے بن گئے جو بعد میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیر علیٰ بلوچستان بن گئے تھے۔2024 ء کے انتخابات میں پروم کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 259 پنجگور کم کیچ میں شامل کیا گیا ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کیلئےحلقہ پی بی 30 پنجگور 2 میں شامل کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

https://sunonews.tv/27/12/2023/pakistan/61617/

ہر دور میں مختلف سیاسی لوگ یہاں سے الیکشن جیتے آئے ہیں لیکن پروم کی پسماندگی میں ذرا برابر بھی کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ روزمرہ زندگی مفلوج ہوگئی ہے اور سہولت نام کی کوئی بھی چیز نظر نہیں آتی۔ سینئر صحافی رفیق چاکر کہتے ہیں ’’ یہ سیاسی لوگوں کے انفرادی سوچ اور ذاتی مفادات کی ترجیحات ہیں جس نے پروم کو اس حد تک پسماندہ رکھا ہے۔ اگر لوگ تھوڑا بھی اجتماعی سوج رکھتے تو شاید آج پروم کی حالت کچھ بہتر ہوتے۔

پروم کے چند اہم مسائل:

تعلیم:

علاقے کے تقریباً ہر محلے میں ایک خستہ حال سفید رنگ کی عمارت نظر آتی ہے جو اسکول کیلئے بنایا گیا تھا لیکن 95 فیصد اسکولز بند ہیں اور عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق علاقے میں سرکاری اسکولز کی تعداد 45 ہے جس میں سے 22 اسکول لڑکوں کیلئے ہیں اور 23 لڑکیوں کیلئے ہیں۔ لڑکوں کیلئے 1ہائیر سکینڈری اسکول، 2مڈل اسکولز اور 19 پرائمری اسکولز ہیں جبکہ لڑکیوں کیلئے 1 ہائی اسکول، 1 مڈل اسکول اور 19 پرائمری اسکولز ہیں۔

گورنمنٹ بوائز ہایئر سکینڈری اسکول کے ہیڈ ماسٹرالطاف منیر کے مطابق ’’علاقے میں گورنمنٹ بوائز ہایئر سکینڈری اسکول سمیت 12 بوائز اسکول فعال ہیں اور باقی غیرفعال اسکولز میں سے کچھ خالی آسامیوں کی وجہ سے بند ہیں جبکہ دونوں بوائز مڈل اسکولز اساتذہ کے ڈیوٹی نہ دینے کی وجہ سے بند ہیں۔ اسی طرح لڑکیوں کے اسکولز میں سے 4 اسکولز فعال ہیں جبکہ ہائی اسکول اور مڈل اسکول سمیت 19 اسکولز مکمل طور پر بند ہیں۔ ‘‘

فعال اسکولز میں زیادہ ترٹیچرز نے اپنی جگہ پہ لوگ رکھے ہیں جن کی نہ تو کوئی ٹرینگ ہوئی ہے اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ بچوں کو پڑھا سکیں بس حاضری لگانے کیلئےرکھے ہوئے ہیں۔ پنجگور کے نامور وکیل عارف صالح کہتے ہیں’’ ٹیچرز کا اپنی جگہ کسی دوسرے کو ڈیوٹی پہ رکھنا قانوناً ایک جرم ہے اور کسی بھی طرح جائز نہیں ہے ، لیکن بلوچستان بھر کی طرح پنجگور شہر اور دیہی علاقوں میں یہ پریکٹس بہت بڑے تعداد میں کیا جا رہا ہے جہاں غیر تربیت یافتہ لوگوں کو کچھ پیسے دیکر اپنی جگہ ڈیوٹی پہ رکھا جاتا ہے اور اگر ان پہ کوئی کیس کیا جائے تو وہ حاضری رجسٹراور تصویریں دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسکول تو کھلے ہیں‘‘

جن لوگوں کو ٹیچرز اپنی جگہ ڈیوٹی پر رکھتے ہیں وہ زیادہ تر پانچویں یا آٹھویں جماعت پاس ہیں جو مشکل سےصرف اردو یا اسلامیات پڑھا سکتے ہیں ۔ الطاف منیر کہتے ہیں ’’ جن لوگوں کو ٹیچرز نے اپنی جگہ ڈیوٹی پہ رکھا ہے وہ اتنے پڑھے لکھے نہیں ہیں کہ بچوں کو پڑھا سکیں، زیادہ تر غیر مقامی ہیں جو یہاں مسجدوں میں پیش امام ہیں تو ان لوگوں کو کچھ پیسے دے کر حاضری لگوائے جاتے ہیں تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ اسکولز کھلے ہیں‘‘۔

خستہ حال عمارتیں تعلیمی بحران کو اور بڑا دیتے ہیں ، 20 سے 25 سال پہلے بنائے گئے عمارتیں جو مرمت نہ ہونے کی وجہ سے تباہ ہوگئے ہیں جن میں کھڑکی ہے نہ دروازے ، پانی کا کوئی انتظام اور نہ فرنیچر۔ ہیڈماسٹر الطاف منیر کے مطابق’’ کئی محلوں کے اسکول کاغذات میں تو ہیں لیکن حقیقت میں وجود نہیں رکھتے اگر کہیں پہ عمارت بنی ہوئی ہے تو اس قابل نہیں کہ اس میں پڑھایا جائے ‘‘۔

قابل اعتماد ذرائع کے مطابق اسکولوں کیلئے جو سالانہ کلسٹر بجٹ ہوتا ہے اس کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی اورہر سال اس میں خورد برد ہوتی ہے۔ ضلعی سرکاری افسران کی عدم توجہی اور سالوں سال تعلیمی اداروں کا دورہ نہ کرنے کی وجہ سے علاقے میں تعلیمی مسائل بہت زیادہ گمبھیر ہوگئے ہیں۔

ہیڈماسٹر الطاف منیرکہتے ہیں ’’ پچھلے کئی سالوں سے یہاں کوئی بھی ایجوکیشن آفیسر دورے پر نہیں آیا ہے ، اصولاً تو ہر مہینے سرکاری دورے ہونے چاہیں اور مہینے کا رپورٹ ڈسٹریکٹ ایجوکیشن گروپ کے میٹنگ میں پیش کرنا ہوتا ہے جو ڈی سی پنجگور کے سربراہی میں ہوتا ہے‘‘۔

ضلع کے ہائی اسکولز ڈسٹریکٹ ایجوکیشن آفیسر کے ماتحت ہیں اورمڈل اسکولز ڈسٹریکٹ آفیسر ایجوکیشن کے ، اسی طرح پرائمری اسکولز ڈپٹی ڈسٹریکٹ ایجوکیشن آفیسر کے انڈر آتے ہیں۔ عارف صالح کہتے ہیں ’’ آفیسرز کو ہر مہینے اسکولوں کا دورہ کرنا چایئے تاکہ ادارے بند نہ ہوں لیکن بدقسمتی سےیہاں سالوں سال اسکولوں کا دورہ نہیں کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں اسکولیں غیر فعال ہیں‘‘۔

علاقے میں ہائیر سکنڈری اسکول کئی سالوں کی غیر فعالی کے بعد تقریباً پچھلے تین سالوں سے فعال ہے اور باقیوں کے بہ نسبت بہتر حالت میں ہے۔ اسکول ریکارڈ کے مطابق اس وقت 409 بچے اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔

بجلی:

پروم دنیا کے ان چند جگہوں میں سے ہے جہاں ابھی تک بجلی نہیں پہنچی ہے، ہر الیکشن میں سیاسی نمایندہ بجلی کا واعدہ تو کرتے ہیں لیکن الیکشن جیتتے ہی پانچ سال بعد دوسرے الیکشن میں نظر آتے ہیں اس لئے اس جدید دور میں پروم بجلی جیسے بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ علاقے کے معروف استاد ، ماسٹرا حمد علی کہتے ہیں ’’ پروم کبھی بھی سیاسی قیادت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا ہے، لیڈرز نے ہر وقت ووٹ تو یہاں سے لیا ہے مگر مسائل حل نہیں کئے ہیں، اس لئے اکیسوئی صدی میں بھی ہم بجلی جیسے بنیادی سہولت سے محروم ہیں‘۔ پروم چونکہ ایک زرعی علاقہ ہے لیکن بجلی کی عدم موجودگی کے باعث لوگوں کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ زرعت کا شعبہ بھی بے حد متاثر ہے۔

u 2015 میں ایم این اے عبدالقادربلوچ کی طرف سے پروم بجلی کیلئے 24 کروڑ روپے دئے گئے تھے لیکن تاحال علاقے میں بجلی نہیں پہنچی ہے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے ضلعی رہنما حاجی عبدالغفارشمبے زئی بتاتے ہیں ’’ پروم بجلی کئلیے ایران سے معاہد ہ کیا گیا تھا لیکن سیاسی عدم توجہی کی وجہ سے یہ کام مسلسل تاخیرکا شکار رہا جس کی وجہ سے ایران نے یہ معاہد ہ مسنوخ کردیا‘‘۔

24 کروڑ روپے سے علاقے میں صرف چند کھمبے لگے اور باقی سارا پیسہ کرپشن کی نظر ہوگیا۔ اور جو کھمبے لگے ان میں سے بھی بہت سارے بارش اور ہوا کی وجہ سے زمین بوس ہوگئے ہیں۔

صحت:

صحت انسان کی بہت ہی بنیادی ضرورت ہے لیکن پروم اس بنیادی سہولت سے بھی محروم ہے۔ کوئی بھی مرکز صحت مکمل طور پر فعال نہیں ہے۔ علاقے میں ایک بیسک ہلتھ یونٹ(بی ایچ یو) اور ایک رورل ہلتھ سنٹر (آر ایچ سی ) ہے۔ بی ایچ یو آر ایچ سی سے کچھ حد تک بہتر حالات میں ہے اور فعال بھی ہے۔ جبکہ آر ایچ سی میں دو ڈسپنسر اور ایک میڈیکل ٹکنیشن ہیں جنہوں نے ہسپتال کو کچھ حد تک فعال رکھا ہے۔

آر ایچ سی میں تقریباً 20 سے 22 لوگوں کی ڈیوٹی ہے لیکن ان تینوں کے علاوہ کوئی بھی ڈیوٹی پر نطر نہیں آتا۔ عمارت بھی خستہ حال ہوگیا ہے ۔ جوا کواٹرز ملازم اور ڈاکٹرز کیلئے بنائے گئے تھے وہ مکمل طور تباہ ہوگئے ہیں۔ ہسپتال میں نہ دوائی ہے اور نہ کوئی ہی ٹسٹنگ سہولت ، یہاں تک کہ پانی بھی نہیں ہے۔

ڈیوٹی پہ معمور ڈسپنسر پزیر احمد کہتے ہیں ’’یہ ہسپتال پہلے بی ایچ یو تھا لیکن 1998 میں اسے اپ گریڈ کرکے آر ایچ سی بنا دیا گیا لیکن ابھی تک ہمیں دوائیاں بی ایچ یو کی بیناد پہ دی جا رہی ہیں جو تیس سال پہلے دی جاتی تھی۔ ہم ایک دن میں 60 سے 70 مریضوں کا چیک اپ کرتے ہیں اور جو دوائیں آتی ہیں ہم اگر کترے کترے سے مریضوں کو دیں تب بھی کافی نہیں ہوتے۔ باقی جو سرجیکل آلات ہیں وہ بھی بی ایچ یو کی بنیاد پہ دی جاتی ہیں‘‘۔

کاغذات میں ہسپتال کو اپ گریڈ کرادیا گیا ہے لیکن چیزیں ابھی تک بی ایچ یو کی بنیاد پر فراہم کی جا رہی ہیں۔

سماجی کارکن عارف مولجان کہتے ہیں ’’جو دوائیاں فراہم کی جاتی ہیں وہ بھی کبھی وقت پر نہیں ملتے ۔ کبھی ٹرانسپورٹ کا بہانہ بنایا جاتا ہے توکبھی کسی اور چیز کا ‘‘۔

آر ایچ سی کی تاریخ بھی دلچسپ ہے، 1992 میں پروم کے لوگو ں نے پنجگور شہر میں بھوک ہڑتال کیا جس کے بعد یہ آر ایچ سی پروم میں بنایا گیا ۔ ماسٹر احمد علی( جو پیشے کے لحاظ سے ایک استاد ہیں ) بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے پنجگور شہر میں آر ایچ سے کیلئے بھوک ہڑتال کیا تھا۔

ماسٹر کہتے ہیں ’’آج جب میں ہسپتال کو اس حال میں دیکھتا ہوں تو دکھ ہوتا ہے، اس ہسپتال کیلئے لوگوں نے بہت جدوجہد کی ہے، بہت قربانیوں کےبعد اے ادارہ یہاں وجود میں آیا۔ لیکن سیاسی قیادت اور ڈسٹریکٹ ہلتھ آفیسرز کی عدم توجہی کی وجہ سے آج ہسپتال کھنڈرات بن گیا ہے ۔ آج ادارہ کہیں سے بھی ہسپتال نہیں لگتا بلکہ قبرستان کا منظر پیش کرتا ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے ماسٹر کی آنکھیں نم ہوگئیں اور انہوں نے اپنے رومال سے آنکھیں صاف کئے۔

ہسپتال کو دو ایمبولینس بھی دئے گئے تھے لیکن وہ بھی سیاست کی نظر ہوگئے۔ علاقے میں جو سیاسی پارٹی اقتدار میں آتا ہے ایمبولینس انہی کے لوکل نمایندوں کے پاس ہوتا ہے جسے وہ اپنی ذاتی ضروریات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ایک نیا ایمبولینس ہسپتال کو دیا گیا تھا لیکن لوگوں نے ذاتی طور پر استعمال کرکے انجن ختم کردیا ہے جاور آج کل پنجگور میں شہر میں پڑا ہے۔ دوسرے ایمبولینس کے حوالے سے خبر ہے کہ عبدوئی بارڈر (عبدوئی بارڈر ضلع کیچ میں پاک ایران بارڈر گیٹ ہے) میں عبداللہ نامی شخص کے نام پر رجسٹر کرکے تیل کے کاروبار میں لگایا گیا ہے۔

ڈاکٹر پزیر کہتے ہیں ’’ایمبولینس صرف آر ایچ سی کے نام سے رجسٹر ہوتے ہیں لیکن یہاں ہسپتال میں استعمال نہیں ہوتے بلکہ سیاسی پارٹیوں کے لوکل لوگ استعمال کرتے ہیں‘‘۔

ہسپتال میں پانی کا بھی کوئی انتظام موجود نہیں ہے، کچھ سال پہلے ایک ٹیوب ویل کا نظام تھا لیکن اب وہ بھی تباہ حالی کا شکار ہوگیا ہے۔

علاقے کے لوگوں کو چھوٹے سے چھوٹے بیماری کی علاج کیلئے بڑے شہروں کے طرف جانا پڑتاہے چونکہ پنجگور شہر میں ہسپتالوں کی حالات زیادہ تسلی بخش نہیں ہیں اس لئے لوگ زیادہ تربت جاتے ہیں، یا پھر کئی سو کلومیٹر طے کرکے کراچی جاتے ہیں۔

زراعت:

زرعی علاقہ ہونے کے باؤجود پروم کے زمیندار اور کسان روایتی طریقے سے کاشتکاری کرتے ہیں۔ جدید آگاہی اور بنیادی ضرورتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے علاقے کی زراعت بہت حد تک متاثر ہے۔

عارف صالح کہتے ہیں ’’ دنیا میں کاشتکاری سائنسی بنیاد اور جدید ٹیکنالوجی سے کی جارہی ہے لیکن پروم میں ابھی تک پرانے اور روایتی طریقوں سے کاشتکاری ہوتی ہے ، کیونکہ لوگوں کوجدید طریقوں کے بارے میں آگاہی نہیں ہے اور نہ ہی سرکار کی طرف سے کوئی قابل ذکر اقدام نظر آتا ہے ،اس کا علاقے کی سالانہ زرعی پیداوار میں بہت برا اثر پڑتا ہے‘‘۔

محکمہ زراعت کی طرف سے کسانوں کیلے جو تالاب یا بیج آتے ہیں وہ سیاسی بنیادوں پرتقسیم کئے جاتے ہیں اور جو حقدار کسان ہیں ان تک نہیں پہنچتے ہیں۔

ہر سال پروم سے پاکستان کی سب سے بہترین کوالٹی کے کجھور وں کا فصل تیار کیا جاتا ہے لیکن کولڈ اسٹوریج اور جدید پیکنگ کے نہ ہونےکی وجہ سے لوگ اس سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ جیسے ہی فصل تیار ہوتا ہے تو کسان اسے جلد سے جلد بیچنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ فصل خراب نہ ہوجائے اور اسی کا فائدہ بڑے سرمایہ دار اٹھاتے ہیں اچھے سے اچھے فصل کو بھی اونے پونے داموں میں خریدتے ہیں اورسرکار کی طرف سے کم سے کم قیمت مختص نہ کرنے کی وجہ سے کسان فصل کی جو قیمت ملتی ہے اسی پر بیج دیتے ہیں۔

دوسرا فصل گندم ہے جو یہاں سے بڑے مقدار میں اگیایا جاسکتا ہے لیکن مارکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے کسان گندم صرف اپنی ضرورت کی حد تک اگاتے ہیں۔

کاشتکاری کیلئے کسان زیر زمین پانی کا استعمال کرتے ہیں اور سولر پینل کی مدد سے پانی اوپر لایا جاتا ہے جو اپنے آپ میں ایک بڑا خرچہ ہے کہ ہر کسی کے دسترس میں نہیں ہوتا۔ اور ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی بھی مسلسل نیچے جا رہا ہے۔

بارڈر:

چونکہ پروم ایک بارڈر ی علاقہ ہے جو ایرانی بلوچستان کے شہر سروان کےدیہات حق آباد کے ساتھ لگتا ہے۔ لوگوں کا روزگار اسی بارڈر پر منحصر ہے۔ لیکن دونوں ممالک کی طرف ایک مناسب طریقہ کار مختض نہ کرنے کی وجہ سے یہ بارڈر بھی لوگوں کیلئے زیادہ سودمند نہیں ہے۔ ہمیشہ سے پروم کے لوگوں کیلئے خوردونوش کے سامان ایران سے ہی آتے رہے ہیں لیکن جب سے بارڈر پر خادار تارین لگی ہیں تو لوگوں کیلئے راشن کا بندوبست بھی مشکل میں آگیا ہے۔

رابطہ کمیٹی پروم( جو علاقے کے دیگر مسائل سمیت بارڈر کے حوالے سے کام بھی کرتا ہے ) کے ترجمان عابد اشرف بتاتے ہیں ’’بارڈر کے دونوں طرف رہائش پزیرلوگوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں ، اب جب سے تاریں لگی ہیں تو عام آمدو رفت میں لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ جہان تک کاروبار کی بات ہے تو وہ بھی کافی مشکل ہوگیا ہے۔ ایک اچھا میکنزم نہ ہونے وجہ سے کبھی اِس طرف کے لوگ نقصان اٹھاتے ہیں تو کبھی اُس طرف کی۔ ‘‘

طریقہ کار اس طرح ہے کہ ضلعی انظامیہ کی جانب سے ہر دن ایک لسٹ جاری کیا جاتا ہے جس میں ہر دن تقریباً 350 گاڈیوں کو اُس طرف جانے کی اجازت دی جاتی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت تقرباً 28 ہزار گاڈیاں رجسٹر ہیں جو پروم بارڈرسے منسلک ہیں جن میں 3 ہزار 276 گاڈیاں پروم کے لوگوں کی ہیں۔ اور ہفتے میں دو دن پروم عوام کیلئے مختص ہیں جس میں صرف پروم کے لوگ اُس طرف جا سکتے ہیں۔

قابل اعتماد ذرائع کے مطابق اتنی گاڑیاں نہیں جتنی رجسٹر کی گئی ہیں، بڑے بڑے سرمایہ داروں نےکرپشن کی مدد سے جعلی رجسٹریشن کی ہے تاکہ ان کی باری مہینے میں چار سے پانچ دفعہ آجائے ۔ غریب لوگوں نے اپنے بیوں کے زیوارت بیج کر ایک گاڈی خریدی ہے تاکہ اپنا گھر چلا سکے لیکن ان جعلی رجسٹریشن کی وجہ ان کی باری مہینے میں مشکل سے ایک بار آتی ہے۔

عابد اشرف کہتے ہیں ’’زیادہ گاڑیاں ہیں اور فی دن صرف 350 گاڑیوں کو بارڈر کے اس پار جانے کی اجازت دی جاتی ہے اسی لئے پروم میں جو لوگ بارڈر سے وابستہ ہیں ان کو مہینے میں صرف ایک دفعہ اس پارجانے کا موقع ملتا ہے اور اکثر اوقات صحیح ریٹ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خالی ہاتھ واپس آتے ہیں، پروم کے لوگوں کیلئے یہ بارڈر کافی ہے اگر صحیح طریقہ کار اپنایا جائے۔‘‘

دیگر مسائل:

کسی بھی علاقے کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ اس کا بڑے شہروں کے ساتھ زمینی رابطہ رہے لیکن پروم اس سے بھی محروم ہے جس کا سب سے بڑا وجہ خستہ حال سڑکیں ہیں۔ پروم پنجگور شہر سے تقریباً 100 کلومیٹر دورہے لیکن ان 100 کلومیٹر کے ٖفاصلے کوبھی طے کرتے ہوئے کم از کم 4 سے 5 گھنٹے لگتے ہیں۔ کچھ سال پہلے ایک سٹرک بنایا گیا تھا جو پروم سے سی پیک روڈ تک تھا لیکن ۱ سال کے اندر اندر وہ سڑک ٹوٹ پوٹ کا شکار ہوگیا ۔

منشیات بھی علاقے میں ایک بہت بڑا مسلہ ہے۔ ہزاروں لوگ نشے کی لت میں مبتلہ ہیں اور جس سے کئی گھر اجڑ گئے ہیں ۔ منشیات پروش سر عام منشیات بیجتے ہیں لیکن اس کی روک تھام کیلئے ضلعی انتظامیہ کی طرف سے کوئی قابل ذکر اقدام نظر نہیں آتا کیونکہ زیادہ تر منشیات پروش سیاسی اثر رسوخ رکھتےہیں۔ اس سیاسی گٹھ جوڑ نے پروم آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ منشیات کے جہنم میں دکھیل دیا ہے تقریباً ہر چوتھاگھر منشیات کی آگ میں جل رہاہے لیکن بدقسمتی سے اس چیز کی روک تھام دور دور تک نظر نہیں آتا۔ اس الیکشن میں پروم سے نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کا آپس میں سخت مقابلہ ہوگا اور حال ہی میں دونوں پارٹیوں کی طرف سے شمولیتی پروگرامز بھی منعقد کئے گے ہیں ۔ لیکن علاقے میں سیاسی کلچر یہ ہے کہ جلسوں میں ایک دوسرے کو برا بلا کہو اور ووٹ مانگو، کوئی بھی پاڑتی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگتا نظر نہیں آتا۔ الیکشن کوئی بھی جیتے! لیکن سوا ل اب بھی وہی کہ پروم کی یہ بدحالی کب تک یونہی برقرار رہے گی۔