این اے 71 سیالکوٹ کا سیاسی دنگل
Image

سنو الیکشن سیل:(رپورٹ، خدیجہ عشرت بھلی) دریائے چناب کے کنارے پر واقع صوبہ پنجاب کا اہم ترین صنعتی شہر سیالکوٹ جو کہ بین الاقوامی دنیا میں کھیلوں کے سامان کی وجہ سے مشہور ہے۔

سیاسی اعتبار سے سیالکوٹ شہر کو اس لیے اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس شہر سے سابق وفاقی وزیر خواجہ آصف اورسابق ایڈوائزر ٹو پرائم منسٹر عثمان ڈار کا تعلق ہے اور یہ دونوں ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے سیاسی حریف ہیں۔

خواجہ آصف 2024 ء کے الیکشن میں سیالکوٹ این اے 71 ، پی پی 45 اور پی پی 46 سے میدان میں مقابلہ کرتے نظر آئیں گے۔ ان حلقوں سے گذشتہ کئی سالوں سے یہ کامیاب ہوتے آ رہے ہیں ۔

سابقہ سپیکر قومی اسمبلی خواجہ صفدر کی وفات کے بعد 1991 ء میں پہلی مرتبہ وہ تین سال کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نشست سے سنیٹر منتخب ہوئے۔ 1993 ء کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 110 (سیالکوٹ) سے پہلی بار ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

جبکہ بعد ازاں 1997 ء کے عام انتخابات میں دوسری بارقومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ خواجہ آصف 2002 ء سے اب تک نا قابل شکست آرہے ہیں ۔ 2002 ء کے عام انتخابات میں این اے 110 سے 42,743 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، 2008 ء کے عام انتخابات میں این اے 110 سے 73,007 ووٹ حاصل کیے۔

یہ بھی پڑھیں:

https://sunonews.tv/27/12/2023/latest/61621/

2013 ء میں عثمان ڈار کے مقابلے میں 92 ہزار 848 ووٹ لے کر دوبارہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2018 ء کے عام انتخابات میں این اے 73 (سیالکوٹ) سے 1 لاکھ 16 ہزار 957 ووٹ لے کر دوبارہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے ۔

اس مرتبہ بھی ان کی پوزیشن بہت مضبوط دکھائی دے رہی ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے سابقہ امیدوار عثمان ڈار اس بار الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ۔ ان کی جگہ ان کی والدہ ریحانہ امتیاز ڈار نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے لیکن ذرائع کے مطابق سوشل سیکیورٹہ کے بقایہ جات کی عدم ادائیگی کے باعث ان کے کاغذات مسترد ہو چکے ہیں۔

عثمان ڈار نے پہلی مرتبہ 2008 ء میں ملکی سیاست میں آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیا تھا لیکن کامیابی حاصل نہ ہو سکی تھی۔انہوں 2013 ء میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، 2013 ء اور 2018 ء میں قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخابی میدان میں آئے اور خواجہ آصف سے شکست ہوئی۔

سانحہ 9 مئی کے واقعے کے بعد تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کی طرح عثمان ڈار کے لئے مشکلات پیدا ہو گئیں جس کے چند ماہ بعد ان کی والدہ ریحانہ ڈار نے اعلان کیا تھا کہ میرا بیٹا پی ٹی آئی چھوڑ بھی دے ، تب بھی میں میں عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑوں گی اور خود الیکشن لڑوں گی ۔

2024 ء کے الیکشن کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف ریحانہ امتیاز ڈار نے اپیل دائر کردی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے حق میں فیصلہ آتا ہے یا پھر تحریک انصاف کسی اور امیدوار کو حمایت یافتہ بناتی ہے ۔

ورنہ خواجہ آصف کے لیے میدان خالی نظر آتا ہے۔ البتہ ان کی اپیل سن لی جاتی ہے تو دونوں جماعتوں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہو گا اور ممکن ہے کہ گذشتہ الیکشن کی نسبت پاکستان تحریک انصاف کو اس مرتبہ زیادہ ووٹ مل جائیں کیونکہ اس مرتبہ ریحانہ امتیاز ڈار ہمدردی کا ووٹ حاصل کر سکتی ہیں۔