سپریم کورٹ: تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ
Image
اسلام آباد: (سنو نیوز) سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مختصر فیصلہ جلد سنایا جائیگا، آئین کو آسان کریں، اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دیں، آئین وکلا کیلئے نہیں پاکستان کے عوام کیلئے ہے، پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہوجاتا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سات رکنی بینچ تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ کا حصہ ہیں۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے کہا کہ نااہلی سے متعلق انفرادی مقدمات اگلے ہفتے سنیں گے، اس وقت قانونی اور آئینی معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے بنیادی معاملہ اسی عدالت کا سمیع اللہ بلوچ کیس کا ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی سمیع اللہ بلوچ کیس میں سوال اٹھایا ہے۔ یہ بھی پڑھیں https://sunonews.tv/04/01/2024/pakistan/62947/ جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل مخدوم علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیمطابق نااہلی کا ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا ؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جی، ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، سول کورٹ فیصلے پر کسی کا کوئی بنیادی آئینی حق تاعمر ختم نہیں ہوتا، کامن لا سے ایسی کوئی مثال مجھے نہیں ملی، کسی کا یوٹیلٹی بل بقایا ہو جب ادا ہو جائے تو وہ اہل ہوجاتا ہے۔ جسٹس میاں محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ آرٹیکل 62 کا اطلاق الیکشن سے پہلے ہی ہوتا ہے یا بعد بھی ہو سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز تک محدود کیوں کر رہے ہیں، ہم آئینی تاریخ کو، بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں، آئین پر جنرل ایوب سے لیکر تجاوز کیا گیا، مخصوص نئی جزئیات داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لیے گئے؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم پاکستان کی تاریخ کو بھول نہیں سکتے، پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہوجاتا ہے، صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو تاحیات نااہل؟ صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟ خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں، ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز اور اس کی زبان تک محدود کیوں کر رہے ہیں؟۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم آئینی تاریخ کو، بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں؟ مخصوص نئی شقیں داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لیے گئے؟ صرف ایک جنرل نے 62 ون ایف کی شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟ خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں، کہا گیا کہ عام قانون سازی آئینی ترمیم کا راستہ کھول سکتی ہے، اسکا کیا مطلب ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جو فیصلہ چاہیں کردیں؟ کیا ہمارے پارلیمان میں بیٹھے لوگ بہت زیادہ سمجھدار ہیں؟ پاکستان کی پارلیمان کا جو امتحان ہے، کیا وہ دنیا کی کسی پارلیمان کا ہے؟ ۔