ملتان ڈویژن میں عام انتخابات، خواتین کیلئے چیلنجز
Image

سنو الیکشن سیل: (رپورٹ، میحا افتخار) ملتان ایک تاریخی شہر ہے جو دریائے  چناب کے کنارے واقع ہے۔ اس کو اولیائے کرام کی سر زمین بھی کہتے ہیں۔

ملتان چار مخصوص اضلاع پر مشتمل ہے جن میں ملتان صدر، شجاع آباد، جلال پور، پیر والا شامل ہیں۔ اس کے شمال اور شمال مشرق میں ضلع خانیوال، شمال مغرب میں ضلع مظفرگڑھ ، جنوب میں ضلع بہاولپور ، جنوب مشرق میں ضلع لودھراں واقع ہے۔

ملتان کے مشہور مقامات میں شاہ رکن عالم کا مقبرہ، بہاء الدین زکریا کا مزار، شاہ گردیز کا مقبرہ، ملتان قلعہ، گھنٹہ گھر، بی بی پاک دامن کا مزار، پیٹرک الیگزینڈر وینز اگنیو یادگار، ملتان آرٹ کونسل شامل ہیں۔

ملتان روایتی اور مذہبی میلوں اور تہواروں کے لیے مشہور ہے۔یہاں اولیائے کرام کے مزاروں پر سالانہ میلے منعقد ہوتے ہیں ۔ اس لیے ملتان کے مضافات میلوں اور دیگر اجتماعات کے لیے مشہور ہیں۔ ملتان شہر، پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک اہم سیاسی مرکز ہے۔ یہاں سے کئی نامور سیاست دان  ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

ملتان کی سیاست میں کئی خاندانوں کا بھی اثر و رسوخ رہا ہے۔ یہاں کے سیاسی خاندانوں میں قریشی، گیلانی اور ڈوگر خاندان قابل ذکر ہیں۔ اہم سیاسی شخصیات میں جاوید ہاشمی، سید یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی، عامر ڈوگر، شوکت حیات بوسن، زین قریشی ، شاہ محمود قریشی، سلمان نعیم شامل ہیں۔

ملتان کی کل آبادی 5362305ہے جس میں مرد ووٹرز کی تعداد 1608441 ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 1433287 ہے۔ عام انتخابات 2024 ء میں سیاسی جماعتیں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں ۔

مردوں کے ساتھ ساتھ خواتیں بھی انتخابات کی ڈور میں شامل ہیں ۔ ملتان انتخابات میں خواتین امیدواروں کا کردار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ 2018 ء کے عام انتخابات میں ملتان سے قومی اسمبلی کی ایک نشست اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں خواتین امیدواروں نے جیتی تھیں۔

فارم 32 کے مطابق 2024 ء کے انتخابات میں ملتان سے  دس خواتین کے کاغزات نامزدگی منظور ہوئے ہیں ۔جن میں انیلہ افتخار، شازیہ بیگم ، شمائلہ ایاز شاہ، فرزانہ سلیمان، سیدہ ظل فاطمہ زید، سیدہ قرعت العین ذاکر، کلثوم ناز، شازیہ نرگس اور نغمہ مشتاق شامل ہیں۔

این اے 151 ملتان سے مہربانو قریشی نے اپنے کا غذات نامزدگی جمع کرائے لیکن ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے ہیں۔ مہربانو نے اپنی الیکشن کیمپئن جاری رکھی ہوئی ہے۔ چھ جنوری کو دوبارہ کاغذات نامزدگی کیس کی سماعت ہوگی۔ تاہم الیکشن کیمپئن جاری رہے گی۔

ملتان میں خواتین امیدواروں کے لیے کچھ چیلنجز بھی ہیں جن کا انہیں سامنا کرنا پرتا ہے۔ ایک چیلنج یہ ہے کہ روایتی طور پر ملتان میں سیاست ایک مردوں کا میدان سمجھا جاتا ہے۔ دوسرا چیلنج یہ ہے کہ خواتین کو سیاسی مہمات میں مالی اور دیگر وسائل کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

الیکشن ایکٹ کے مطابق  ہر سیاسی جماعت پر پابندی ہے کہ وہ کم از کم پانچ فی صد ٹکٹ خواتین کو دیں لیکن ابھی تک ایسا ہوتا نظر نہیں آیا ۔ خواتین کی اتنی قلیل تعداد میں جمہوری عمل میں شرکت کی بہت سی وجوہات ہیں جیسے پاکستانی معاشرے میں خواتین کو سیاست میں حصہ لینے کے لیے حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے۔

انہیں اکثر گھر سے باہر نکلنے انتخابات میں کھڑے ہونے ، انتخابی مہم چلانے ، پولنگ اسٹیشن جانے اور ووٹ ڈالنے سے روکا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ملتان میں وڈیرہ سسٹم ہے ۔ سیاسی جماعتیں خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہیں۔ وہ اکثر خواتین امیدواروں کو کم ترجیح دیتی ہیں اور انہیں مناسب فنڈنگ اور حمایت فراہم نہیں کرتی ہیں۔

کچھ مخصوص اقدامات ہیں جو حکومت اور سیاسی جماعتیں کر سکتی ہیں جیسے معاشرے میں خواتین کے لیے سیاست میں حصہ لینے کے بارے میں مثبت رویے کو فروغ دینا، خواتین کے لیے سیاست میں حصہ لینے کے لیے تربیت اور وسائل فراہم کرنا، خواتین امیدواروں کے لیے انتخابی مہمات کو فروغ دینا، ان اقدامات کو کرنے سے ملتان سمیت پاکستان بھر میں خواتین کی سیاسی شرکت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں خواتین کی جمہوری عمل میں عدم شرکت کی وجہ سے آبادی کا ایک بڑاحصہ نا صرف نمائندگی سے محروم رہتا ہے بلکہ ان کی دلچسپی کے منصوبے بھی شروع نہیں ہوپاتے ۔ خواتین کے بغیر معاشی عمل بھی مکمل نہیں ہوتا اور جب تک خواتین کے لیے تحریک دینےکے لیے کام نہیں ہوتے ، اس وقت تک یہ معاملات رہیں گے۔

ملتان میں خواتین امیدواروں کے لیے ان چیلنجز کو عبور کرنے کے لیے کام کرنے، سیاسی جماعتوں کو خواتین امیدواروں کو زیادہ وسائل اور تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کو بھی خواتین کی سیاسی شمولیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

ملتان میں خواتین امیدواروں کی کامیابی سے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی کی امید ہے۔ ملتان کی سیاست میں کئی اہم مسائل بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں غربت، بیروزگاری، جرائم ، تعلیم، بدعنوانی اور وسائل میں کمی شامل ہیں۔