پی پی 278 کا سیاسی احوال
Image

تحریر: کاشف ندیم

حلقہ بندیاں ایک مرتبہ پھر بدلیں لیکن ضلع کوٹ ادو کو فرق نہ پڑا۔ یہاں تک کہ اس حلقے میں سیاستدان بھی عوام نے بدل کے دیکھ لیے پھر بھی فرق نہ پڑا۔ حکومتیں بدلیں پر اس خطے کی تقدیر نہ بدلی۔اب ایک مرتبہ پھر عام انتخابات کی آمد آمد ہے۔ سیاسی نمائندوں نے بھی میدان میں اترنے کے لیے کمر کس لی ہے۔دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

508280افراد کی آبادی پر مشتمل صوبائی نشست کا یہ حلقہ جس میں ٹائون کمیٹی دائرہ دین پناہ چارج نمبر گیارہ جس کی آبادی 37644 میونسپل کمیٹی کوٹ ادو چارج نمبر نو اور دس جس کی آبادی 142161 دائررہ دین پناہ قانون گوئی حلقہ جس کی آبادی 127372 کوٹ ادو نمبر 1 قانونگوئی حلقہ جس کی آبادی 68329 اور کوٹ ادو نمبر2قانونگوئی حلقہ بشمول شادی خان منڈا پٹوار سرکل جس کی آبادی 132774 نفوس پر مشتمل ہے، انکی تقدیر بدلنے کے الاپ راگنے والے اور جوئے شیر لانے کے دعوے داروں کی اس بار بھی لمبی فہرست ہے۔

انتخابی مہم چلانے والوں نے عوام میں ہمیشہ ایک جیسا چورن بیچا ہے کہ اگر ہمیں ووٹ دوگے تو ہم دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینگے اور عموماً پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد عوام کے ساتھ پھر وہی سٹریٹ تھیڑ اپنے نعرے لگاتے، آتے جاتے فنکاریاں دکھاتے ۔ بعد انتخابات ایسے لگتا جیسے بلوچستان سے شاید یہ دنبے چرانے آئے تھے اور اپنے مسکن کو لوٹ گئے ہیں۔

یہاں قطعی مطلب خانہ بدوش نہ لینا اور عوام الناس کو دنبے بھی مت سمجھنا ، ہاں عوام کو چرایا ضرور ہوتا ہے اور قربانی کے دنبے بھی بنایا ضرور ہوتا ہے۔خیر آمدم برسر مطلب پی پی 278 میں سیاسی کھیل بہت دلچسپ ہے کیونکہ امیدوار ہی اتنے ہیں کہ ووٹ کی تقسیم مثال اور سابقہ نتائج سے کر لیتے ہیں کہ سال 2018 میں ہونیوالے صوبائی انتخابات میں اشرف خان رند نے بلے کے نشان پر 42564 ووٹ حاصل کیے۔ ملک احمدیار ہنجرا نے شیر کے نشان پر 24676 ، میاں امجد عباس قریشی نے تیر کے نشان پر 10649 ، ارشد صدیقی صاحب متحدہ مجلس عمل کی مکمل حمایت و معاونت سے 7241 ووٹ لیے، آزاد امیدوار کی حیثیت سے ملک شکیل کوریہ نے 5017 ، اسی طرح طاہر محمود نے بھی آزاد امیدوار کے طور پر 3133ووٹ لیے ۔

محمد یار محبوب کھر کو کرین کے نشان پر اسکے حامیوں نے لبیک کہتے ہوئے 2564ووٹ دیے۔ سید فیاض حسین شاہ مرحوم 1760 ، رانا عبدالعزیز 1570 ووٹ لے پائے ۔ اب کی بار اشرف خان رند ، ملک احمد یار ہنجرا، ملک اختر حسین بریار ، میر آصف خان دستی، ارشد صدیقی ، طاہر محمود پتل ، ڈاکٹر عمر فاروق بلوچ ، شہباز غوث بخاری ، چوہدری روف الرحمن اور فرقان آصف بزدار کے علاوہ اور بھی متعدد امیدوار ہیں جو شاید اسمبلی میں تو نہ جا سکیں لیکن ایک دوسرے کو نقصان ضرور پہنچائیں گے۔

اس حلقے میں درجن بھر یونین کونسلز ہیں اور سابقہ کونسلرز کی بھی خواہش رہی ہے کہ وہ بھی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوں۔ یہاں سب سے زیادہ مشکل منتخب شدہ امیدواروں کو ہوتی ہے چونکہ اپنے دور اقتدار میں وہ حلقہ کے عوام کو راضی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

یہاں کے سیاست دانوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کو سیاسی مشیر کسی بھی دور میں سیاسی بصیرت والے نہیں ملے جس کی بدولت انہیں ناقابل تلافی نقصان کا سامنا رہا ہے۔ اس حلقے کی سیاسی فضا بارے جو چہ میگوئیاں ہیں ، اس میں تحریک انصاف کا ووٹ ابھی بھی منتشر ہوتا نظر نہیں آتا ، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ شخصیت کا بھی اپنا ایک وقار ہے۔

اسوقت تحریک انصاف کے ٹکٹ کے طلبگاروں میں ڈاکٹر عمر فاروق بلوچ ، شہباز غوث بخاری اور چوہدری رئوف الرحمن کے نام گردش کر رہے ہیں۔ جبکہ ٹکٹ کا فیصلہ میاں شبیر علی قریشی کی مشاورت سے ممکن ہے ۔ ڈاکٹر عمر فاروق نے اپنا زیادہ وقت عوام میں گزارا ہے اور انہوں نے لگاتار انتخابی مہم چلا رکھی ہے ۔ کوٹ ادو کو یونیورسٹی دلانے کی تحریک چلانے سے لیکر شعرا کرام اور ادب پرست طبقے کی حوصلہ افزائی کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ۔ سرائیکی دانشوروں سے الفت اور سرائیکی وسیب کی محرومیوں پر علم بلند کرنے کی جسارت کرتے رہے ہیں۔ جبکہ شہباز غوث بخاری کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ مستقل تحریک انصاف کے کارکن ہیں اور اپنے لیڈر کی آواز پر لبیک کہنے والے وہ واحد امیدوار ہیں جنہوں نے احتجاج اور دھرنوں میں شمولیت کی اور جماعت کے ساتھ وفا داری نبھا رہے ہیں۔

وہ باقی سیاستدانوں کو فصلی بٹیرے قرار دیتے ہیں اورپرامید ہیں کہ وہ ٹکٹ کے حصول میں کامیاب ہوکر اسمبلی تک جاسکتے ہیں ۔ چوہدری رئوف رحمن بھی تحریک انصاف کے مقامی عہدیدار رہے ہیں۔ متمول خاندان کے چشم و چراغ ہیں لیکن سیاسی سرگرمیوں میں خال خال نظر آتے ہیں۔ اس حلقے میں عوامی مسائل پر جنہوں نے ہمیشہ آواز بلند کی اور احتجاج ریکارڈ کراتے اور زبان خلق بنتے رہے ۔ان میں ارشد صدیقی ، فرقان آصف بزدار اور ڈاکٹر عمر فاروق بلوچ رہے جبکہ میر آصف خان دستی بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرتا رہا۔

یہ وہ شخصیات ہیں جو عوام کے زیادہ قریب ہیں اور ان تک رسائی میں کسی کو مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔ باقی سیاستدانوں تک پہنچنے میں وقت اور انتظار کے ساتھ اعصاب کا مضبوط ہونا بھی لازم ہے۔ ڈاکٹر عمر فاروق کی عوامی سیاست عوام کے دکھ سکھ میں شریک ہونا ،ارشد صدیقی کا عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے انکے کندھے سے کندھا ملا لینا اور فرقان آصف بزدار کا دکھی انسانیت کی خدمت کرنا انکی انفرادیت ہے لیکن سیاست میں اتنا کافی نہیں ہوتا اور جب ایسے امیدوار ایک دوسرے کے مقابل آتے ہیں تو فائدہ کسی اور کا ہوتا ہے ۔

ایسے میں ان کے لیے لازم ٹھہرتا ہے کہ اگر حلقے کے عوام اور خطے کی خیر خواہی کا درد رکھتے ہیں تو ارشد صدیقی ڈاکٹر عمر فاروق اور فرقان آصف بزدار متحد ہوکر انتخابی اکھاڑے میں کسی ایک امیدوار کو لیکر آتے ہیں تو شاید باقیوں کی چھٹی ممکن ہے، وگرنہ اشرف خان رند اور احمد یار ہنجرا اس وقت مقابلے کی دوڑ میں ہیں۔اور ان دونوں مضبوط امیدواروں سے اگر کوئی مقابلے کی طاقت رکھتا ہے تو سابق وزیر مملکت میاں شبیر علی قریشی ہیں جن کے متعلق باوثوق ذرائع سے یہ خبر گرم ہے وہ صوبائ اسمبلی کے اس حلقے سے امیدوار ہونگے اور این اے 179 سے وہ اپنی والدہ مسز خالدہ محسن قریشی کو لڑوائیں گے۔

انکے اس فیصلے میں سیاسی بصیرت ہے چونکہ ہنجرا خاندان کی طرف سے ملک احمد یار ہنجرا مضبوط امیدوار ہیں وہ اگر قومی اسمبلی کی نسشت کے امیدوار ہوتے تب بھی وہ اپنے مدمقابل کے لیے سخت آزمائش ثابت ہوتے۔ میاں شبیر علی قریشی اگر بلے کے نشان کی بجائےآزاد حیثیت سے الیکشن لڑتے ہیں تو شاید اس حلقے میں بلے کے نشان پر کوئی بھی امیدوار نہ ہو اور بلے کا ووٹ بھی انکے نشان کو ملے گا ۔

دوسری اہم بات کوٹ ادو کو ضلع کا درجے دلوانے میں میاں شبیر علی قریشی اور اشرف خان رند دونوں الگ الگ دعوے دار ہیں اور اس حوالے سے وہ اپنے لیے کتنے ووٹ لے سکتے ہیں یہ انکی اپنی ذات پر ہے لیکن اس حلقے کے عوام کو بے روزگاری، آلودگی ٹوٹے پھوٹے روڈ ، شہر میں سیوریج کا دیرینہ مسئلہ اور صحت جیسے مسائل کے ساتھ پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں کامیاب تو کسی ایک نے ہونا ہی ہے لیکن مسائل جوں کے توں رہنے ہیں ۔