تحریر: رضا کھرل
وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت:19 اکتوبر 1951 ءتا 17 اپریل 1953ء
اکتوبر کی سولہ تاریخ 1951ءکو وزیر اعظم لیاقت علی خان کو سید اکبر نامی شخص نے راولپنڈی کے ایک جلسہ میں گولی مار کر شہید کردیا تو یہ نوزائیدہ مملکت پر قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد دوسرا بڑا سانحہ تھا ۔ یہ ایک ایسا سیاسی بحران تھا جس کی اس سے پہلے مثال نہ تھی ۔ اس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو کہا گیا کہ وہ بطور وزیر اعظم ملک کے انتظامی سربراہ بنیں۔ بعض روایا ت میں انہوں نے خود وزیر اعظم بننے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ انہوں نے 19 اکتوبر 1951 ءکو وزارت عظمیٰ کا چارج سنبھالا۔ ان کی جگہ غلام محمد ملک جو لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں وزیر خزانہ تھے ، وہ گورنر جنرل بنا دیے گئے۔
یوں ایک سول بیوروکریٹ جو1946 ءکی وزارت میں جب نواب زادہ لیاقت علی خان وزیر خزانہ تھے، ان کے سیکریٹری خزانہ بن گئے ۔ پاکستان بننے کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں وزیر خزانہ کے عہدے پر پہنچ گئے۔ آگے کے چار سال ، پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ گورنر جنرل غلام محمد ہی تھے۔ خواجہ ناظم الدین نے اپنی کابینہ کا آغاز 24 اکتوبر 1951 ءکو کیا۔ خواجہ ناظم الدین کی کابینہ میں شامل اکثر وزراء وہی تھے جو وزیر اعظم لیاقت علی خان کی کابینہ کا حصہ تھے ۔ خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم نے دفاع کا قلمدان اپنے پاس رکھا ۔
باقی وزرا کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
1:سر محمد ظفراللہ خان، وزیر خارجہ پاکستان :24 اکتوبر 1951 ءتا 17 اپریل 1953ء
سر محمد ظفراللہ جو لیاقت علی کی وزارت میں بھی وزیر خارجہ تھے ۔ خواجہ ناظم الدین کے دور میں بھی وہی رہے۔ وہ قادیانی تھے اور مختلف حلقوں میں ان کی سخت مخالفت کی جارہی تھی۔ ان کے دور وزارت میں انہوں نے پاکستان کے تشخص کے لیے بہت کام کیا۔ کشمیر کے معاملے پر نہ صرف بھارت بلکہ اقوام متحدہ کے لیول پر پاکستان کے لیے کوشش کی۔ وہ قادیانی تھے اور اس کا اظہار بھی وہ برملا کرتے تھے۔ اسی دوران میں 1953 ءمیں پاکستان میں احمدیوں کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے اور لاہور پر پاکستان کا پہلا مارشل لا بھی لگا۔
2:فضل الرحمان وزیر تجارت ، تعلیم اور معاشی معاملات :24 اکتوبر 1951 ءتا 17 اپریل 1953ء
فضل الرحمان ڈھاکہ کے ایک اردو بولنے والے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مسلم لیگ کو بنگال میں فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی کابینہ کا بھی حصہ رہے۔ دوسری میں انہیں تجارت کے ساتھ تعلیم اور معاشی امور کی وزارتیں دی گئیں۔ انہیں نے تعلیم کے فروغ کے لیے انتہائی زیادہ محنت کی لیکن بنگالی کے مقابلے میں اردو زبان کو فروغ دینے کے بیان نے انہیں مشرقی بنگال میں کافی غیر مقبول بنا دیاتھا۔ اسی دور میں ڈھاکہ میں اردو بنگالی کے تنازعے کو لے کر فسادات بھی پھوٹ پڑے تھے اور مشرقی بنگال کی سیاست میں مسلم لیگ کی غیر مقبولیت کا آغاز بھی ہوا تھا۔
3:چوہدری محمد علی وزیر خزانہ:24 اکتوبر 1951 ءتا 17 اپریل 1953ء
چوہدری محمد علی ، جالندھر سے تعلق رکھتے تھے۔انہوں نے لاہور سے سائنس میں تعلیم حاصل کی اور ایم ایس سی کیمسٹری کرنے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ بعد میں انہوں نے انڈین سول سروس جوائن کرلی ۔1936 ءمیں وہ اس وقت کے وزیر خزانہ کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ 1946-47 ءمیں وہ ہندوستان کے سیکریٹری خزانہ بنے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ وزیر خزانہ غلام محمد کی وزارت کے دور میں سیکرٹری خزانہ تھے۔ خواجہ ناظم الدین کی وزارت میں انہیں وزیر خزانہ بنایاگیا ۔بعد میں چوہدی محمد علی پاکستان کے وزیر اعظم بھی بنے۔ اور انہی کے دور میں پاکستان کا پہلا آئین جسے 1956 کا آئین کہتے ہیں لاگو ہوا۔
4:عبدالستار پیرزادہ، وزیر قانون، خوارک اور زراعت:
عبدالستار پیر زادہ کا تعلق سکھر سندھ سے تھا ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم وہاں سے ہی حاصل کی۔ انگلینڈ میں حساب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ قانون کی ڈگری بھی لی ۔ واپس سکھر میں وکالت شروع کی اور ساتھ ہی ساتھ سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کردیا۔ قیام پاکستان سے پہلے سندھ اسمبلی کے رکن اور سندھ کابینہ میں رہے۔ قیام پاکستان کے بعد عبدالستار پیرزادہ خوارک اور زراعت کے ساتھ ساتھ قانون کے بھی وزیر رہے۔
5:خواجہ شہاب الدین وزیر داخلہ، اطلاعات اور نشریات:24 اکتوبر 1951 ءتا 26 نومبر 1951ء
یہ ڈھاکہ کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے بھائی تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ڈھاکہ سے ہی حاصل کی۔ سیاسی زندگی کا آغاز بھی ڈھاکہ سے ہی کیا۔ 1928 ء سے 1944 ء تک وہ ڈھاکہ مسلم لیگ کے صدر رہے۔ وہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے خزانچی بھی رہے۔ وہ 1943ء سے 1945 ءتک بنگال میں خواجہ ناظم الدین حکومت میں وزیر تجارت بھی رہے۔ قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خاں کی وزارت میں وزیر داخلہ رہے اور بعد میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت میں بھی وزیر داخلہ بنے۔ 1951 ءمیں انہیں صوبہ سرحد موجودہ صوبہ خیبر پختونخواہ کا گورنر بنایا گیا۔
6:مشتاق احمد گرمانی وزیر داخلہ ، امور کشمیر، ریاستیں اور سرحدی امور:24 اکتوبر 1951 ءتا 17 اپریل 1953ء
ان کا تعلق کوٹ ادو کے قریب ایک گائوں ٹھٹہ گرمانی سے تھا۔ نواب مشتاق احمد خان گرمانی قیام پاکستان سے پہلے ریاست بہاولپور کے دیوان تھے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان کی وزارت میں انہیں پہلے بغیر محکمے کے وزیر بنایاگیا اور بعد میں امور کشمیر کا چارج ملا ۔ خواجہ ناظم الدین کی وزارت میں بھی خواجہ شہاب الدین کے سرحد کے گورنر بننے کے بعد نواب مشتاق احمد گرمانی کو وزیر داخلہ کا بھی چارج دے دیا گیا۔ نواب گرمانی بعد میں بھی مختلف وزارتوں پر فائز رہے۔ 1954 ءسے 1957 ءتک وہ گورنر پنجاب رہے۔ جب مغربی پاکستان ون یونٹ بنا تو وہ گورنر مغربی پاکستان بنے۔ عملی سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے فلاحی کاموں خاص طور پر تعلیم کے فروغ کے لیے کام کیا ۔ انہوں نے گرمانی فاونڈیشن قائم کی اور اسی کے تحت لاہور یونی ورسٹی آف مینیجمنٹ سائینسز میں گرمانی سکول آف سوشل سائنسز بنا۔
7:سردار بہادر خان، وزیر مواصلات :24 اکتوبر 1951 ءتا 17 اپریل 1953ء
یہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ہری پور سے تعلق رکھتے تھے ۔ جنرل ایوب خان کے بھائی تھے ۔یہ پہلے این ڈبلیو ایف پی ( موجودہ خیبر پختونخوا) کی قانون ساز اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے تھے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان کی وزارت میں سردار بہادر خان ، وزیر مملکت برائے خارجہ امور کے ساتھ ساتھ کشمیرامور رہے۔ بعد میں 1949 ء میں مکمل وزیر کا درجہ ملا اور لیاقت علی خاں کے دور میں ہی وہ مواصلات کے وزیر رہے۔ یہ کچھ عرصہ بلوچستان کے چیف کمشنر بھی رہے تھے ۔ اپنے بھائی فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور صدارت میں وہ قائد حزب اختلاف رہے تھے۔
8:ڈاکٹر اے ایم ملک وزیر صحبت، محنت اور منصوبہ جات:24 اکتوبر 1951 ءتا 17 اپریل 1953ء
ان کا تعلق مشرقی بنگال سے تھا ۔ انہوں نے آسٹریا سے طب کی تعلیم حاصل کررکھی تھی جب کہ وہ ٹریڈ یونین سے بھی وابستہ تھے۔ لیاقت علی خان کی کابینہ میں بھی وہ وزیر صحت اور محنت رہے تھے اور خواجہ ناظم الدین کی حکومت میں بھی انہیں یہ ہی محکمے ملے ۔ بعد میں وہ مختلف ممالک میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ۔ 1969 ءمیں یحییٰ خان کی مارشل لا حکومت میں وہ وزیر صحت رہے۔ اگست 1971 ء میں وہ مشرقی بنگال میں گورنر بنائے گئے۔ اسی دوارن بھارتی طیاروں نے گورنمنٹ ہائوس ڈھاکہ پر بمباری بھی کی۔ انہوں نے ریڈ کراس میں پناہ لی ۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد انہیں عمر قید کی سزادی گئی۔
9:سردار عدبدالرب نشتر، وزیر صنعت: 26 اکتوبر 1951 ءتا 17 اپریل 1953ء
سردار عبدالرب نشتر تحریک پاکستان کے اہم ترین ناموں میں سے ایک ہیں۔ ان کا تعلق این ڈبلیو ایف پی موجودہ خیبر پختونخواسے تھا۔آپ پشتونوں کے کاکڑ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ۔ ابتدائی تعلیم پشاور سے حاصل کی ، بقیہ تعلیم بمبے ، لاہور اور علی گڑھ سے مکمل کی۔ خلافت تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ بعد میں انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ آخر کار آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے تو اس کے لیے اپنی توانائیاں صرف کردیں۔ قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خاں کی کابینہ میں کم و بیش دو سال کے لیے وہ وزیر مواصلات رہے۔1949 ء میں وہ پنجاب کے گورنر بنا دیے گئے بعد میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت بنی تو وزیر صنعت رہے۔ ان کی سادہ اور ایماندارانہ زندگی کی کئی کہانیاں ہمارے معاشرتی علوم کا حصہ رہی ہیں۔ سردار عبدالرب نشتر نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت گرانے کے خلاف احتجاج کیا اور بعد میں وہ چوہدری محمد علی کی حکومت میں قائد مسلم لیگ تھے۔
10 :ڈاکٹر محمد حسین خان، وزیر امور کشمیر اور وزیر تعلیم :26 نومبر 1951 ءتا 17 اپریل 1953ء
وزیرکشمیر امور :4 فروری 1953 ءتا 17 اپریل 1953ء، وزیر تعلیم
ڈاکٹر محمد حسین خان کا تعلق اتر پردیش انڈیا سے تھا ۔ ان کی ابتدائی تعلیم علی گڑھ ہائی اسکول سے تھی ، بعد میں وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی چلے گئے۔ وہ علی برداران سے بہت متاثر تھے ۔ انہوں نے ہیڈل برگ یونی ورسٹی جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی کا آغاز ڈھاکہ یونیورسٹی سے کیا۔ وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں 1948 ءتک بطور پروفیسر تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کے رہے۔ وہ مجلس دستور ساز پاکستان کے ممبر بنے اور پارلیمانی کمیٹی برائے اقلیتیں اور حقوق کے انچارج رہے۔ لیاقت علی خان حکومت میں پہلے انہیں دفاع اور خارجہ امور کا ڈپٹی منسٹر بنایا گیا ۔ بعد میں وہ وزیر مملکت بنا دیے گئے۔خواجہ ناظم الدین کی حکومت میں پہلے وہ وزیر برائے امور کشمیر بنے اور بعد میں کچھ عرصہ کے لیے تعلیم کا قلمدان بھی ان کے سپرد کیا گیا۔ محمد حسین خان بھارت کے تیسرے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے بھائی تھے ۔ بعد میں جب گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت ختم کی تو سردار عبدا لرب نشتر، عبدالستار پیرزادہ اور محمد حسین خان نے سخت احتجاج کیا اور گورنر جنرل کی طرف سے وزارت کی پیش کش ٹھکرادی۔ انہوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی کرتے ہوئے فروغ تعلیم کی طرف توجہ دی اور کراچی یونیورسٹی کے وہ تاریخ کے شعبے کے پہلے سربراہ بنے۔انہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ جرمنی اور امریکہ یونیورسٹیوں میں بھی جز وقتی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1960 ءمیں وہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے ۔ وہ حکومت کی طرف سے طلبہ کے احتجاج کے خلاف اقدامات کے سخت مخالف تھے اور پھر مجبوراً 1963ء کو انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ وہ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے سخت مخالف تھے۔ 1966ء میں کراچی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ 1975 ء میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے جب کی ان کی رحلت ہوئی۔
11:ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، وزیر برائے مہاجرین اور آبادکاری، اطلاعات و نشریات:26 نومبر 1951 ءتا 17 اپریل 1953ء
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی یا آئی ایچ قریشی تاریخ کے طالبعلموں کے لیے ایک گھریلو نام ہے۔ انہوں نے تاریخ کے مختلف دھاروں اور زمانوں پر کئی کتب لکھی ہیں۔ آپ بھی الہ آباد کے قریب پٹیالی گائوں میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم سینٹ سٹیفنز کالج دہلی سے تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی تاریخ کیمبرج یونیورسٹی یوکے سے کیا۔ کچھ عرصہ سینٹ سٹیفنز کالج میں تاریخ بھی پڑھاتے رہے۔ بعد میں دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی بنے ۔ یہ وہی دور ہے جب تقدیم ہند کےوقت ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے اور انہیں 1948 ءمیں پاکستان کی طرف ہجرت کرنی پڑی۔ وہ دستور مجلس پاکستان کے ممبر بھی بنے اور ساتھ ہی ساتھ درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ لیاقت علی خان کی حکومت میں کچھ عرصے کے لیے وزیر مملکت برائے داخلہ اور مہاجرین بھی رہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے بانی سربراہ مقرر ہوئے ۔ خواجہ ناظم الدین حکومت میں وہ وزیر اطلاعات و نشریات کے ساتھ ساتھ مہاجرین اور آبادکاری کے وزیر بھی رہے۔ وہ کچھ دیر کولمبیا یونیورسٹی میں بطور استاد بھی فرائض سرانجام دیتے رہے۔ انہیں ایوب خان کے مارشل لا کے دور میں پاکستان کی تعلیمی پالیسی بنانے کا ٹاسک دیاگیا۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔
ڈاکٹر محمد حسین خان برائے دفاع، ریاستیں اور سرحدی علاقہ جات:24 اکتوبر 1951 ءتا 26 نومبر 1951 ء، ان کا تذکرہ بطور فل وزیر کیا جاچکاہے۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ویر مملکے برائے مہاجرین و آبادکاری ،ان کا تعارف بھی اوپر تحریر کی صورت میں موجود ہے۔
12:عزیزالدین احمد وزیر مملکت برائے اقلیتی امور، 24 اکتوبر 1951 ءتا 17 اپریل 1953ء
ان کا تعلق مشرقی بنگال سے تھا ۔ قیام پاکستان کے وقت یہ دستور ساز اسمبلی کے ممبر تھے اور سرکاری امور کے سلسلے میں اقوام متحدہ تک گئے تھے۔ خواجہ ناظم الدین کی حکومت میں وزیر مملکت برائے اقلیتی امور بنے۔
13:غیاث الدین پٹھان وزیر مملکت برائے خزانہ اور پارلیمانی امور، 19 اگست 1952 ءتا 17 اپریل 1953 ء
ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں ۔ بس یہی کہ یہ پہلی مجلس دستور ساز کے ممبر تھے اور لیاقت علی خان کے ساتھ ساتھ خواجہ ناظم الدین کی حکومت میں بھی وزیر مملکت رہے۔ اس سے پہلے غیاث الدین پٹھان خواجہ ناظم الدین حکومت میں 24 اکتوبر 1951 سے 19 اگست 1952 تک ڈپٹی وزیر بھی رہ چکے تھے۔
14: سید خلیل الرحمان وزیر مملکت برائے دفاع، 19 اگست 1952 ءتا 17 اپریل 1953ء
سید خلیل الرحمان کا تعلق دہلی کے سادات گھرانے سے تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم لاہور کے مزنگ ہائی اسکول سے حاصل کی بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کرنے کے بعد قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ چلے گئے۔ وہاں کی ان کی دوستی مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی سے ہوئی، بعد میں آپ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے ۔ مسلم لیگ کو پنجاب میں مقبول کرنے میں ان کا بڑا کردار تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح سے عقیدت تھی ۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز و قانون ساز اسمبلی کے ممبر بنے ۔ خواجہ ناظم الدین نے انہیں وزیر مملکت بنایا ۔ بعد میں انہوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage