زندہ ہے بھٹو زندہ ہے
Image

تحریر: کاشف ندیم

وہ جس نے اس کو لحد میں رکھ کے لحد کے منہ پہ چٹان رکھ دی،وہ یاد رکھے کہ اس نے گونگی زمین کے منہ میں زبان رکھ دی۔

شہروں ،دیہاتوں ،گوٹھوں ،کٹنیوں ،تھل ریگستان ،تھر چولستان، خانہ بدوش یا خیمہ زن سبھی کے لیے یہ دن سوگ ماتم تعزیت کا دن تھا، ہر مفلس قلاش اور غربت کدے سے آہ و سسکیاں تھیں پرسہ دیا جا رہا تھا اس اواز کو ہر ذی سماعت محسوس کر رہا تھا کہ "میں ہر اس غریب کے گھر میں رہتا ہوں جس کی چھت بارش سے ٹپکتی ہے۔

" غربت کدہ کے ہر مکین کو سینٹرل جیل راولپنڈی سے ایک میت ملی تھی جسے دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار تھی چار اپریل کے طلوع ہوتے شاہ خاور کی کرنیں گڑھی خدا بخش کے در و دیوار کو ہمیشہ کے لیے سوگوار کر رہی تھیں۔ اس مٹی کو ایک امانت سونپ رہی تھیں۔اس تاریک رات کی تاریکی دیکھیں پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم بیسویں صدی کا سوشل ڈیموکریٹ اقتدار کا نہ تو پجاری تھا نہ ہی بھکاری میں تو کہتا ہوں وہ سیاستدان بھی نہ تھا وہ سیاست دان ہوتا تو یوں نہ مارا جاتا۔

وہ شاعر تھا، باغی تھا اور انقلابی تھا وہ دما دم مست قلندر کرنے والا تھا۔ غریب کسانوں مزدوروں مزارعوں ہاریوں بے آوازوں کا ہیرو جمہور کا میر کارواں مظلوم اور محکوم عوام کا رہنما ذہین فطین سیاستدان تھا۔وہ نڈر تھا بے باک تھا بے لوث تھا۔

اگر اس پر تنقید کرنے والے اجرتی لکھاری ہوں یا ترجمان جب جب وہ اپنے خود ساختہ اور مصنوعی سیاسی پیمانوں اور ڈھانچوں میں بھٹو کو فٹ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں تو نہ صرف انہیں شرمندگی بلکہ مایوسی اور بے ضمیری کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس دنیا کے وہ تمام مجاہد، انقلابی، فلسفی، دانا اور حق گو جنہوں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرجراٴت اظہار کا عملی مظاہرہ کیا، بھٹو ان کے ساتھ کھڑا ہے۔

آپ ذوالفقارعلی بھٹو کو سقراط اور حُسِین بن علی بن ابی‌طالب کی جراٴت انکار کی کسوٹی پر پر کھئیے۔تو بھٹو بھی اپنے نظریہ میں دھنی پایا گیا۔ بھٹو نے اپنے تمام تر کارنامے بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا کہ میں نے اس ملک کے گونگے عوام کو زبان دی، انہیں سوچنا سکھایا، انہیں ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولنا سکھایا اور یہ کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ اس نہتے عوام نے جیلوں میں، دارورسن پر، ٹکٹکیوں پر، گوٹھوں میں ،بیٹ میں ، صحرا و چولستان کی تپتی ریت میں ،شہروں اور دیہاتوں میں عشقِ بھٹو کی تاریخ رقم کی اوراسے قائد عوام بنا دیا۔

فوجی ڈکٹیٹر کی بد ترین آمریت کے شکار عوام سولی چڑھے، کوڑے کھائے، تکلیفیں اور ایذائیں سہیں، خود کو نذر آتش کیا مگر ہر ظلم کا جواب جئے بھٹو کے نعرے سے دیا۔ اور بھٹو کو مار کر بھی نا مار سکے ۔بھٹو کے کچھ جرائم بھی دیکھ لیں جو اس سے سرزد ہوئے پھر تختہ دار پر لٹکنا تو تھا ۔

ٹیکسلا ہیوی کمپلیکس، روس سے سٹیل مِل، فرانس سے ایٹمی ری ایکٹر ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک عام آدمی کے لیے پاسپورٹ کا حصول اور لاکھوں بے روزگار پاکستانیوں کو سعودی عرب،کویت، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات، ترکی اور یورپ میں روزگار کا حصول، اندرون ملک مزدور، تاجر ، طالب علم، کسان کو قومی دھارے میں لے آنا۔

خواتین کے خصوصی حقوق،صوبوں کی خودمختاری، پہلی دفعہ غریب کے بچوں کے لیے بھی یکساں تعلیمی سہولیات ۔ جگہ جگہ ہسپتال ۔ قیدیوں کے لیے جیلوں کی اصلاحات۔ ملک بھر کے جاگیرداروں سے زمینیں چھین کر غریب کسانوں اور ہاریوں میں تقسیم ،پہلی زرعی اصلاحات کا نفاذ اور زرعی یونیورسٹی کا قیام۔

اُنہوں نے 1973ء میں ملک کو پہلا متفقہ آئین دیاپاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے مالامال کرنے کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی بنیادرکھی ۔دنیا کے 77 ترقی پذیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ۔اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقادکروایا۔

اقوام متحدہ میں جس طرح ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی غلطی سر زد کی اس طرح کی غلطی کوئی اور لیڈر آج تک نہ کر سکا۔ 5 فروری کو یوم کشمیر کے طور پر منسوب اور شملہ معاہدہ کر گئے۔بھاری صنعتوں ،بینکوں اورتعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے کر سرمایہ داروں کے چنگل سے آزاد کرنے کا جرم ۔

زرعی اصلاحات، سستی ٹرانسپورٹ ،خوراک بنیادی مراکز صحت کا قیام اور غریبوں کے لئے علاج کی مفت سہولت، تعلیم اور علاج کے لئے بجٹ کا 43فیصد مختص کرنے جیسے جرائم انکے کھاتے میں ہیں۔پاکستانی عوام کو شناخت دینے کے لیے قومی شناختی کارڈ بنوانے کے لیے قانون سازی اور دیگر اصلاحی غلطیاں بھی کر گئے ۔

قادیانیوں کو نہ صرف کافر قرار دیا بلکہ قادیانیت کی تبلیغ پر بھی پابندی عائد کر کے بڑا گناہ کر بیٹھے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بھٹوآج بھی گڑھی خدا بخش سے راج کر رہا ہے۔ بھٹو کے نام پر آج بھی اسکا داماد دوسری مرتبہ صدر مملکت ہے۔ اسکا نواسہ وزیر خارجہ رہ چکا ہے اسکی نواسی بلا مقابلہ ایم این اے منتخب ہو چکی ہیں ۔دو صوبوں میں حکومت، سینٹ میں اکثریت اور بغض بھٹو کا شکار ابھی بھی نا مانیں کہ بھٹو زندہ ہے تو پھر لبوں پر انگشت رکھنا ہی بہتر عمل ہے ۔

بہر حال فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا،وہ شان سلامت رہتی ہےیہ جان تو آنی جانی ہے،اس جاں کی تو کوئی بات نہیں انسانی تاریخ کی چند یادگار اموات کرداروں میں سے

ایک کردار بھٹو ازم اور انکی موت جو انکا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ انکی جسمانی موت کے پنتالیس سال بعد عدالت نے انکی پھانسی پر جو فیصلہ سنایا وہ بھی تاریخ رقم کر گیا۔اس فیصلے نے نا صرف انکا مرتبہ بڑھا دیا بلکہ پاکستان کے غریب عوام کے لئے امید، حوصلے اورجراٴت کا استعارہ بھی بن گیا ۔

شکستہ دلوں کی تار تار پلستر ادھڑی دیواروں پر روشن پیشانی اور چمکتی آنکھوں والے بھٹو کی تصویر محبت اور وفا کی علامت بن کر نقش ہے۔ عوام اور تاریخ کا ہیرو بھٹو ہے جبکہ بھٹو ازم کے مخالف و قاتل تاریخ کے کوڑے دان کا پیٹ بھرتے رہے ۔ عشق بھٹو میں مبتلا بھٹو ازم کو بہترواں فرقہ قرار دیتے ہیں جن کے خون میں بھٹو کا عشق محو رقص ہے۔

جن کے دلوں میں محبتوں کا ولی، بھٹو زندہ ہے۔ جن کی سوچ میں ترقی اور خوشحالی کا امام زندہ ہے جب بھی 4 اپریل کی شام غریباں پرنم آنکھوں اور افسردہ آنگنوں میں اترتی ہے، عوام کا سمندر بول اٹھتا ہے۔جیے بھٹو زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔اور یہ دن راقم الحروف کی زندگی میں کچھ خاص بھی ہے چونکہ جنم دن کی مناسبت 4 -اپریل سے ہے ۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage