ڈنکی اور اسکا انجام۔۔۔
Image
تحریر : سہیل اقبال اپنی زمین ،اپنا ملک ،اپنی مٹی سب کو عزیز ہوتی ہے لیکن اگر حالات معاشی طور پر مستحکم نہ ہوں تو پھر دل میں سجے سہانے خوابوں کو بیرون ملک جا کر پورا کرنے کیلئے ایک چاہ پیدا ہونے لگتی ہے جسے پورا کرنے کیلئے کچھ لوگ قانونی اور کچھ غیرقانونی طریقے سے پردیس جاتے ہیں، پردیس ہر ایک کیلئے آسان نہیں ہوتا کوئی برداشت کرلیتا ہے کوئی واپس آجاتا ہے۔ اگر ہم دوسرے معاشی طور پر مستحکم ممالک کی بجائے ایشیائی ممالک کی بات کریں تو بے روزگاری کی انتہا ہوتی جارہی ہے۔ بہت سے ایشیائی ممالک ہیں جن کی معیشت بہتر نہیں تو پھر وہاں کے لوگ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ باہر جا کر روزگار کمایا جائے ، باہر جانے کیلئے کچھ قانونی طریقے اپناتے ہیں کچھ غیرقانونی طریقوں سے جانے کے خواب دیکھتے ہیں، جسے (ڈنکی) کہتے ہیں۔ ڈنکی لفظ سے بہت سے لوگ واقف ہونگے اور بہت سے نہیں، پاکستان سے ہر روز کئی افراد پیسے کمانے کیلئے یورپ جانے کا خواب دیکھے سفر شروع کرتے ہیں لیکن جب یہ سفر غیر قانونی ہو تو اس میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں جس میں صرف زندہ رہنا ہی انسان کا واحد مقصد بن جاتا ہے۔ اگرپاکستان کی بات کی جائے تو پنجاب کے بہت سے علاقے اس (ڈنکی) کی لپیٹ میں آتے ہیں، گجرات، گوجرانوالہ ، سیالکوٹ اطراف کے لوگ اس لفظ کے مطلب کو بخوبی جانتے ہیں، پاکستان کے صوبے بلوچستان سے ایران اور پھر وہاں سے ترکیہ کے راستے پیدل یا کنٹینروں میں جانوروں کی طرح بند ہو کر یونان جانے کو’’ڈنکی ‘‘کہتے ہیں۔ اس تلخ حقیقت سے وہی لوگ واقف ہوتے ہیں جو یا تو راستوں کے دشوار ہونے سے واپس آجاتے ہیں یا پھر جن کی قسمت میں باہر کا رزق ہوتا ہے کامیاب ہوجاتے ہیں، ایسے لوگ لاکھوں روپوں کیساتھ اپنی جان کا بھی سودا کرتے ہیں ان میں کچھ کے پیچھے پورا خاندان ہوتا ہے تو کچھ اپنی آگے زندگی سنوارنے کے خواب دیکھ کر یہ خطرناک کھیل کھیلتے ہیں، بیشتر پاکستانیوں کو بلوچستان سے ایران باڈر کراس کروایا جاتا ہے انکو کنٹینروں میں سامان کے نیچے چھپا کر اور بعض اوقات گاڑیوں کے نیچے باندھ کر لیجایا جاتا ہے، اگرخوش قسمتی کیساتھ ایران پار کر لیں تو آگے ترکیہ سے کشتیوں میں سوار کرکے یونان کی طرف روانہ کیا جاتا ہے، یہ راستہ بہت دشوار، خطرناک ہوتا ہے، ایک چھوٹی سی کشتی میں 40 سے 50 لوگ سوار ہوتے ہیں، سمندری طوفان، گہری لہروں کے باعث کشتی الٹنے سے بہت سے نوجوانوں کے خواب اس گہرے پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہاں ایجنٹوں کا رول بہت اہم ہوتا ہے، اپنی جان پر کھیل کر جانیوالے زندگی سے ستائے بے روز گار معاشی حالات سے تنگ افراد ایک طرف اپنی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں، دوسری طرف انکی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ ایجنٹ ان قسمت کے مارے افراد کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں، ایجنٹ ان افراد سے پیسے تو لیتے ہیں مگر راستے میں جاتے لوگوں سے ساتھ لیجانے والی ضروری اشیا بھی لے لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سے ایک سیمی اللہ ہیں جن کیساتھ یہ تجربہ ہوا، اپنی آپ بیتی میں انہوں نے بتایا کہ وہ یونان جانے کیلئے پہلے بلوچستان کے راستے کنٹینروں کے اندر ڈبوں میں چھپ کر ایران پہنچے وہاں ان سے ایجنٹوں نے سب کچھ لے لیا جس راستے سے وہ ایران گئے سارے راستے پانی کے علاوہ کچھ کھانے کو نہیں دیا گیا، ساری رات خطرناک راستوں سے گزرتے ہوئے دوسرے ممالک کی فوج اور اداروں کے لوگوں سے بچتے بچاتے پانی میں سے گزرتے ہوئے ایران پہنچے ۔ سیمی نے بتایا کہ راستہ اتنا مشکل تھا کہ اس میں 99 فیصد موت اور صرف ایک فیصد زندہ رہنے کا چانس ہوتا ہے، ان تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے سیمی کا کہنا تھا کہ اس نے یونان جانے کی بجائے واپس پاک سرزمین آنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ڈنکی لگانے والوں میں سے جو راستے میں ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں ان کو وہاں ہی چھوڑ دیا جاتا ہے جبکہ اس کام میں انسان کی میت کا واپس مل جانا بھی پیچھے بدقسمت لوگوں کی خوش قسمتی ہوتی ہے۔ یہ صرف پاکستان کا حال ہے جبکہ ہمارے ہمسائے ممالک میں بھی یہ کام عروج پر ہے، اس لیےغیرقانونی طور پر باہر کے خواب سجانے کی بجائے اپنی سرزمین کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لینا چاہیے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی ترکیہ شہر ازمیر سے اٹلی جاتے ہوئے گہرے سمندر میں حادثے کا شکار ہوگئی تھی جس میں پاکستانیوں سمیت 60 افراد ہلاک ہوئےتھے تمام افراد غیرقانونی طور پر اٹلی اور یونان جا رہے تھے۔ اس حادثے میں روزگار کی تلاش میں تارک وطن ہونے کا فیصلہ کرنے والی قومی ہاکی خاتون کھلاڑی شاہدہ رضا بھی ہلاک ہوگئیں تھیں۔ اب آپ سوچتے ہوں گے کہ اتنے بڑے پیمانے پر انسانی سمگلنگ ہو رہی ہے تو ہمارے متعلقہ ادارے کیا کر رہے ہیں ۔تو اس کا جواب ہے کہ ہم پاکستان میں رہتے ہیں۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage