حکومت کو 8 فروری کو انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کا حکم
Image
اسلام آباد: (سنو نیوز) سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو 8 فروری 2024 کو ملک میں عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کا حکم دے دیا۔ صدر مملکت کی جانب سے دستاویز پر دستخط کے بعد عدالت نے 9 روز میں انتخابات سے متعلق کیس نمٹا دیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے انتخابات کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ صدر مملکت اور الیکشن کمشنر کی ملاقات کے منٹس عدالت کو فراہم کریں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کتنا وقت لگے گا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آدھے گھنٹے میں فراہم کر دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چلیں ہم اس کیس کو آخر میں سن لیں گے۔ وقفہ سماعت کے بعد اٹارنی جنرل نے صدر مملکت اور الیکشن کمشنر کے درمیان ملاقات کے منٹس عدالت میں جمع کرا دیئے۔ اٹارنی جنرل نے الیکشن کمیشن کا صدر کو لکھا گیا خط عدالت میں پڑھ کر سنایا اور کہا کہ صدر مملکت سے چیف الیکشن کمشنر سمیت الیکشن کمیشن کے دیگر ممبران ملے۔ چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ صدر مملکت کے دستخط کہاں ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر مملکت کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں پیش دستاویزات پر صدر مملکت کے دستخط کہاں ہیں ؟ پہلے دستاویزات پر صدر سے دستخط کرا کر لائیں پھر کیس سنیں گے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر مملکت سے دستخط کرا لیتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے مطابق صدر نے انتخابات کی تاریخ دینی ہے، ایک بات واضع کر دیں، اس کیس میں آئین کی تشریح کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں منفی سوچ نہیں رکھنی چاہیے، دیکھیں برا مت مانیں، ہم کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دینا چاہتے، اکثر لوگوں کے ذہن میں بدل جاتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے صدر کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کی دستخط شدہ کاپی عدالت کو فراہم کر دی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا یہ اصل کاپی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک اصل کاپی تین فوٹو کاپیز ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہہ اصل کاپی آپ رکھیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ صدر کی دستاویز پڑھ کر سنا دیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر مملکت نے 8 فروری کی تاریخ دی ہے۔ اٹارنی جنرل نے نوٹیفکیشن کی کاپی سپریم کورٹ میں جمع کروا دی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا سب خوش ہیں ؟ کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں ؟ الیکشن کمیشن کے تمام ممبران نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے؟ اس میں کوئی ایشو تو نہیں ؟ ہم چاہتے ہیں الیکشن ہوں، امید کرتے ہیں آئندہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد انتخابات کی تاریخ پر الیکشن کمیشن اور صدر مملکت میں اختلاف ہوا، وکیل تحریک انصاف علی ظفر کے مطابق صدر مملکت نے 13 ستمبر کو الیکشن کمیشن کو خط لکھا، کسی ایڈووکیٹ جنرل نے انتخابات کی تاریخ پر اعتراض نہیں کیا۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ آئین پر عمل کرنا محض آپشن نہیں، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان کا معاملہ غیر ضروری طور پر اسی عدالت میں لایا گیا، صدر نے خط میں لکھا کہ الیکشن کمیشن صوبائی حکومتوں سے مشاورت کر کے تاریخ کا اعلان کرے۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ صدر کے اس خط پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ کا تاریخ دینے کے معاملے پر کوئی قردار نہیں، صدر مملکت ملک کا اعلی عہدہ ہے، حیرت ہے کہ صدر مملکت اس نتیجے پر کیسے پہنچے۔ حکم نامہ کے مطابق تاریخ دینے کا معاملہ سپریم کورٹ یا کسی اور عدالت کا نہیں، صدر مملکت کو اگر رائے چاہیے تھی تو 186 آرٹیکل کے تحت رائے لے سکتے تھے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ صدر اور الیکشن کمیشن کی اعلان کردہ تاریخ پر بلاتعطل انتخابات ہوں، عام انتخابات کی تاریخ کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہو چکا ہے، 8 فروری کو انتخابات کرانے پر کسی فریق کو اعتراض نہیں ہے، لہذا وفاقی حکومت 8 فروری 2024 کو انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے اور انتخابی شیڈول کا اعلان کرے۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ عوام کو منتخب نمائندوں سے دور نہیں رکھا جاسکتا، امید کرتے ہیں ہر ادارہ پختگی اور سمجھ کے ساتھ چلے، غیر آئینی طور پر اسمبلی تحلیل کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ سماعت کے بعد عدالت نے حکم نامے کے ساتھ انتخابات سے متعلق تمام درخواستیں نمٹا دیں۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے ملک میں 8 فروری 2024 کو انتخابات کا نوٹی فیکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا ہے۔