
تحریر: حماد حسن
یہ دسمبر انیس اناسی کی ایک یخ بستہ شام تھی اور ماسکو شدید برف باری کی لپیٹ میں تھا۔ سیاہ رنگ کی ایک گاڑی روسی صدر برژنیف کی سرکاری رہائش گاہ میں داخل ہوئی اور لمبے قد کا ایک آدمی ہاتھ میں کوئی فائل لئے تیزی کے ساتھ اس کمرے کی طرف بڑھا جہاں روسی صدر اس کا منتظر تھا۔
گاڑی میں آنے والے شخص کا نام یوری آندرو پوف تھا اور وہ اس وقت روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے جی بی کا سربراہ تھا۔ تھوڑی دیر میں خفیہ ادارے کے سربراہ نے روسی صدر کو ان انٹیلی جنس معلومات کے بارے بریف کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ چند دن پہلے افغانستان کے صدر حفیظ اللہ امین نے امریکی سفارتکار آرچر بلڈ کے ساتھ خفیہ ملاقات کی ہےاور اس ملاقات میں یہ فیصلہ ہوا ہےکہ افغانستان میں امریکی مفادات اور اثر و رسوخ کو روس پر فوقیت دی جائے گی۔
ساتھ میں یہ بھی بتایا گیا کہ حفیظ اللہ امین کافی عرصہ امریکا میں رہائش پذیر بھی رہے ہیں۔ (یاد رہے کہ کہ اس سے کچھ عرصہ پہلے حفیظ اللہ امین بھی روس نواز نور محمد تر کئ کے قتل کے بعد اقتدار میں آئے تھے جبکہ حفیظ اللہ امین کو بھی روس کی تائید حاصل تھی)۔
اس بریفنگ کے تین دن بعد بارہ دسمبر کو روس کی پولٹ بیورو نے کوئی بحث کئے بغیر یعنی کافی عجلت میں افغانستان میں روسی افواج کے داخل ہونے کی منظوری دے دی۔ ستائیس دسمبر کو افغان فوجی وردیوں میں ملبوس کے جی بی اہلکار اور کمانڈوز کابل کے ایوان صدر میں داخل ہو گئے اور حفیظ اللہ امین کے قتل کے ساتھ ہی ریڈیو کابل سے روس نواز خلق پارٹی کے ببرک کارمل کی صدارت کا اعلان بھی کر دیا۔
اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں روس کی مزید دو ڈویژن فوج بھی افغانستان میں داخل ہو گئیں اور یوں روس (جسے عرف عام میں سفید ریچھ کہا جاتا تھا ) کی افغانستان میں فوج کی تعداد تیس ہزار تک پہنچ گئی لیکن اس کے ساتھ ہی ایک طویل اور خونریز جنگ کا آغاز بھی ہو گیا جس میں ایک طرف جدید اسلحے ٹیکنالوجی ٹریننگ اور طاقتور انٹیلی جنس سے لیس روسی افواج جبکہ دوسری طرف قبائل میں منقسم نیم حکومتی مملکت اور با قاعدہ فوج سے محروم انتہائی پسماندہ ملک افغانستان تھا۔
عمومی طور پر یہ ایک تاریخی حقیقت ہےکہ غاصب بیرونی فوج کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو لیکن اگر مقامی جنگجو اپنی ضعف اور کمزوری کے باوجود بھی مزاحمت پر کمر بستہ ہو جائیں تو پھر انہیں روند کر گزر جانا اتنا سہل بھی نہیں ہوتا کیونکہ مقامی جغرافیے سے شناسائی اور عوامی رابطہ اور اخلاقی سپورٹ ان کے طاقتور ہتھیار ہوتےہیں۔
لیبیا ، الجزائر اور ویتنام اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ سو افغان عوام نے اپنی جینیاتی ساخت اور گوریلا جنگ کے تاریخی تجربے کا فائدہ اٹھاتے اور ماضی کی روایت کو نبھانے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے پر پیچ راستوں اور سنگلاخ پہاڑوں سے شناسائی کو اپنی طاقت بنا کر غاصب روسی افواج کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔
اس جنگ نے آنے والے دنوں میں نا صرف پاکستان اور مسلم امہ کی توجہ حاصل کر لی بلکہ مغربی ممالک خصوصا امریکا بھی اپنے مفادات کے لئے افغانوں کی کمک کو آن پہنچا۔ اس دوران شدید اور خوفناک جنگ کی وجہ سے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت بھی دیکھنے میں آئی، جب پچاس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین ہمسایہ ملک پاکستان میں داخل ہوئے (جن کی ایک بڑی تعداد ابھی تک پاکستان ہی میں مقیم ہیں )۔
اگلے دنوں میں یہ جنگ سی آئی اے سے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز اور سعودی شاہی محل اور وائٹ ہاؤس سے یونائیٹڈ نیشن تک سب سے اہم اور قابل اہمیت موضوع کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ دوسری طرف عالمی سطح پر لاجسٹک سپورٹ کے باوجود بھی عملی طور پر میدان میں افغان مجاہدین ناصرف ذاتی طور پر ہی موجود تھے بلکہ طاقتور روس کے خلاف ان کی مزاحمت بھی شاندار اور حیرت انگیز تھی۔ خصوصا ًکابل کے آس پاس گلبدین حکمت یار اور وادی پنج شیر میں احمد شاہ مسعود نے گوریلا جنگ کی کامیابیوں کو ایک آرٹ کے طور پر پیش کیا۔
یہ دونوں نوجوان لیڈر اس حد تک پوری دنیا سے خراج لے چکے کہ جب اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے وائٹ ہاؤس میں افغان مجاہدین لیڈروں کو ملاقات کی دعوت دی تو پروٹوکول کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ عجلت میں اس ہال میں داخل ہوئے جہاں اسے گلبدین حکمت یار سے ملنا تھا ۔
یہ جنگ لگ بھگ نو سال تک جاری رہی جس نے افغان قوم کی جھولی میں پندرہ لاکھ لاشیں ڈالیں لیکن اس سے بھی زیادہ خوفناک اور نقصان دہ وہ منظر نامہ ہے جس سے باہمی نفاق ، خانہ جنگی، مذہبی انتہا پسندی ، دہشت گردی اور عالمی سطح پر تنہائی برآمد ہوئے۔
فروری انیس نواسی میں شکست خوردگی اور تھکاوٹ کی شکار روسی فوج افغانستان کو لہو لہان چھوڑ کر واپس چلی گئی تو طاقتور روس بھی اتنا زخم خوردہ اور شکست و ریخت کا شکار تھا کہ وہ اپنے وجود کو بھی نہ سنبھال سکا اور نا صرف کئی ریاستوں میں بٹ کر رہ گیا بلکہ معاشی اور اقتصادی طور پر زوال کی انتہا کو چھونے لگا تھا ۔
گو کہ بعد میں روس نے خود کو اپنے وژن محنت اور غلطیوں کے ادراک کے سبب توانا اور ترقی یافتہ بھی بنایا اور طاقتور بھی، لیکن بدقسمتی سے افغانستان ترقی، دانش اور امن کے ہموار راستے پر آنے کی بجائے ان گھاٹیوں میں ابھی تک پھنسا ہوا ہے جہاں دہشت گردی، بندوق، مذہبی تنگ نظری اور وژن سے محرومی نے اس بد نصیب ملک کو مسلسل تباہی اور تنہائی کی طرف ہی دھکیلا۔
المیہ ملاحظہ ہو کہ چالیس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد اب نہ تو افغانستان میں سفید ریچھ (روس) کی کوئی موجودگی باقی رہی اور نہ ہی افغانوں کی آزادی کی دلیر مزاحمت ! لیکن کابل کا رستا ہوا زخم اور لہولہان جسم اب بھی سنبھلنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage