تحریک انصاف کا بلے کا نشان واپس لینے کا فیصلہ بحال
Image

پشاور: (ویب ڈیسک) تحریک انصاف کے انتخابی نشان "بلے" کو بحال کرنے کیخلاف الیکشن کمیشن آف کی درخواست پر پشاور ہائیکورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اپنا حکم امتناع واپس لے لیا ہے۔

انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کی درخواست پشاور ہائیکورٹ نے منظور کر لی ہے۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کی بحالی کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر آج پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس محمد اعجاز خان نے سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

یاد رہے کہ گذشتہ سال 22 دسمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان بلے کو واپس لے لیا تھا۔بعد ازاں 26 دسمبر کو پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کردیا تھا۔ 30 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کے حکم امتناع کیخلاف نظرثانی کی درخواست کی تھی۔

الیکشن کمیشن نےموقف سنے بغیر پشاور ہائیکورٹ کے حکم امتناع جاری کرنے پر اعتراض اٹھایا تھا۔2 جنوری2024ء کو پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو بلے کے انتخابی نشان کی بحالی کیخلاف الیکشن کمیشن کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کردی تھی۔

آج مورخہ 3 جنوری 2024ء کو سماعت کے موقع پرپی ٹی آئی کے وکیل قاضی انور، شاہ فیصل اتمان خیل اور الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند اور عدالت عالیہ میں پیش ہوئے۔معزز جج جسٹس اعجاز نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے دلائل ہم نے سن لیے ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ میں یہاں صرف سماعت سننے کیلئے آیا ہوں۔

تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل قاضی انور نے اپنے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان قانونی ادارہ نہیں، عدالت عالیہ میں اپنے فیصلے کے حق یا مخالفت میں آنا توہینِ عدالت ہے۔ گذشتہ روز اس مقدمے میں مشال یوسفزئی پیش ہوئیں، وہ اس کیس میں وکیل نہیں ہیں۔ اپنی رہائش گاہ گھر سے روانہ ہوا تو پشاور ہائیکورٹ کے قریب چار مرتبہ میری تلاشی لی گئی۔

جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کے اطراف میں اضافی سیکیورٹی پر وکلا رہنمائوں نے رٹ دائرکر دی ہے، ہم نے آئی جی خیبر پختونخواکو طلب کیاہے۔ الیکشن کمیشن نے کل 4اعتراضات عائد کیے ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ قاضی انور میرے سینئر ہیں، میں نے پریکٹس بھی ان کیساتھ ہی شروع کی۔ مشال یوسفزئی اس مقدمےکی وکیل نہیں ہیں، میں اور بیرسٹر گوہر علی خان اس کیس میں وکیل ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ قانون کی تشریح کرنا عدالت کا کام ہے۔

جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ عدالت کے باہر جو ہوتا ہے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وکیل قاضی انور نے استدلال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن ہائیکورٹ احکامات کیخلاف عدالت آسکتا ہے۔ 26 جنوری کو عدالت کے حکم پر ابھی تک کوئی عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔ ابھی تک الیکشن کمیشن نےتحریک انصاف کا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر جاری نہیں کیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ آج 3 جنوری ہے، 9 جنوری میں بہت کم دن رہ گئےہیں۔ ہمارے امیدواروں کے کاغذات مسترد ہوئے ، الیکشن کمیشن کو بتانا چاہیے کہ انہوں نے کیا کیا ہے؟ پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام پارٹیوں نے الیکشن کمیشن کیساتھ مل کر پی ٹی آئی کو عام انتخابات سے باہر کرنے کا منصوبہ بنایا ہواہے۔

وکیل قاضی انور نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے استدعا کی ہے کہ 26 دسمبر کاحکم واپس لیا جائے۔ الیکشن کمیشن کو اس آرڈر سے کیا مشکلات ہیں؟ یہ مقدمہ 9 تاریخ کو ڈویژن بینچ سنے، جب انہوں نے ویب سائٹ پر سرٹیفکیٹ شائع نہیں کیا تو ان کو مسئلہ کیا ہے؟

معزز جج جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ یہ اب ان سے ہم پوچھیں گے۔ قاضی انورنے کہا کہ ایک سیاسی پارٹی کو ایک طرف کرناجمہوریت اور الیکشن کمیشن کے لیے اچھا نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کو ایک پولیٹیکل پارٹی کیخلاف استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کروائے۔

قاضی انور کا کہنا تھا کہ ملکی آئین میں درج ہے کہ الیکشن کا انعقاد فری اینڈ فیئرکیا جائے۔مخدوم جاوید ہاشمی کےمقدمے میں سپریم کورٹ آف نے کہا تھا کہ جب کاغذات نامزدگی کے ساتھ ہی انتخابات کا عمل سٹارٹ ہو جاتا ہے، رزلٹ کا اعلامیہ آنے تک یہ الیکشن ہوتا ہے۔

جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ آپ کے دو نکات ہیں کہ کیا الیکشن کمیشن عدالت کے آرڈر امتناع کے خلاف نہیں آسکتےجبکہ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو اس حکم سے کیا مشکلات ہیں؟

وکیل قاضی انور نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں بھی اسی طرح کا مقدمہ تھا۔ لاہور ہائیکورٹ نے بھی یہی کہا کہ اس میں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ ہے کہ اس کیس کو 9 جنوری کو دیکھیں گے۔ میں نے سنا ہے کہ الیکشن کمیشن لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے مطمئن ہے۔

جسٹس اعجاز خان نے استفسار کیا کیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے مطمئن ہے۔ قاضی انور نے کہا کہ بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر علی ظفر دھند کے باعث پیش نہیں ہوسکے۔

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کرنے والے درخواست گزار کے وکیل نوید اختر ایڈووکیٹ بھی پشاور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے اور کہا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی چارسدہ کا نائب صدرتھا، لیکن عدالت میں درخواست جمع ہوتے ہی تو ان کی رکنیت کو ختم کردیا گیا۔ درخواست گزار جہانگیر نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات پر درخواست دی، پی ٹی آئی نےقانون اور جماعتی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کومنعقد نہیںکیا۔

جسٹس اعجاز خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس مقدمےمیں ہم فیصلہ نہیں کرسکتے، 9 جنوری2024ء کو ڈویژن بنچ کیلئے لگا ہے۔ سکندر مہمند نے کہا کہ میں نہیں کہہ رہا کہ کوئی فیصلہ دیا جائے، صرف معطلی کا فیصلہ واپس لیا جائے، پھر ڈویژن بنچ کے سامنے کیس پر دلائل دیں گے، 9 جنوری تک معطلی کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage