اردن اور بحرین کا اسرائیل کیخلاف بڑا اقدام
Image

غزہ :(سنو نیوز) غزہ پر جاری حملوں کے درمیان کچھ ممالک نے اسرائیل سے دوری اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ یکم نومبر کو لاطینی امریکی ملک بولیویا نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کر دیے۔ اب بدھ کو عرب ملک اردن نے بھی اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔

چند روز قبل جنوبی امریکا کے دو دیگر ممالک کولمبیا اور چلی نے بھی اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اردن نے اسرائیلی سفیر کو غزہ میں کی جانے والی فوجی کارروائی کے خلاف احتجاجاً وہاں سے چلے جانے کو بھی کہا ہے۔

7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے جواب میں غزہ کی جانب سے اب تک 9 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔ اردن نے کہا ہے کہ اسرائیل کے حملوں میں بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں اور انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کیلئےکتنے فلسطینی بچوں کو مرنا ہوگا؟ طیب اردوان

اردنی وزارت خارجہ نے کیا کہا؟

اردن کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ ایمن صفادی نے کہا کہ ہم نے تل ابیب سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے اور ہم دوبارہ سفیر نہیں بھیجیں گے۔ غزہ پر جو جنگ چھیڑی گئی ہے، جس میں ہزاروں فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اس نے ایک انسانی بحران پیدا کر دیا ہے اور نسلوں تک لوگوں کو پریشان کرے گا۔

اردنی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ تل ابیب سے سفیر کی واپسی اسی صورت میں ہو گی جب اسرائیل غزہ پر اپنی جنگ روک دے اور پیدا ہونے والے انسانی بحران کو ختم کر دے۔ اردن کے نائب وزیر اعظم نے کہا کہ "یہ قدم اردن کے موقف کو بیان کرنے اور غزہ پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کے لیے اٹھایا گیا ہے۔"

اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملے شروع ہونے کے بعد انسانی امداد اور امدادی سامان کی ترسیل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے امداد کے سینکڑوں ٹرک روزانہ غزہ پہنچتے تھے لیکن جنگ شروع ہونے کے بعد یہ تعداد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہو گئی ہے۔

اس طرف اشارہ کرتے ہوئے اردن کی حکومت نے کہا کہ سفیر کو واپس بلانے کا فیصلہ اس لیے بھی کیا گیا ہے کیونکہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیل فلسطینیوں کو خوراک، ادویات اور تیل تک رسائی کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

نائب وزیر اعظم صفادی نے کہا کہ اردن اسرائیل پر جنگ کے خاتمے کے لیے سفارتی دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے جس سے پورے خطے میں تنازعات پھیلنے اور عالمی امن کو خطرہ لاحق ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے حملے میں 1400 شہری مارے گئے اور اس نے 240 خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو اغوا کیا تھا۔ ہم حماس اور اس کے قاتل دہشت گردوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو غزہ کی پٹی کے شہریوں کو اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کر کے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

فلسطینی پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد عرب ملک اردن میں مقیم:

خیال رہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد عرب ملک اردن میں مقیم ہے۔ تازہ ترین تنازعہ نے اس آبادی میں ایک بار پھر خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ اس آبادی میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ اگر تنازعہ بڑھتا ہے تو اس سے اسرائیل کو مغربی کنارے سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کرنے کا موقع مل جائے گا۔

اردن کی سرحد مغربی کنارے سے ملتی ہے۔ جب اسرائیل قائم ہوا تو اس علاقے کی ایک بڑی آبادی اردن بھاگ گئی تھی۔اردن کے شاہ عبداللہ نے بدھ کے روز کہا کہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کا فوجی اور سیکیورٹی حل کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ شاہ عبداللہ نے کہا کہ اس مسئلے کا واحد حل دو قومی نظریہ پر بات کرنا ہے۔

جب سے اسرائیل نے غزہ پر حملہ شروع کیا ہے، اردن میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کئی مظاہرے ہوئے۔ یہ مظاہرے اسرائیلی سفارت خانے کے باہر بھی ہوئے۔ ان مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ اسرائیل اور اردن کے درمیان 1994 ء میں ہونے والا غیر مقبول امن معاہدہ ختم کیا جائے۔

اردن میں اسرائیلی سفارت خانہ اس سے قبل اسرائیل مخالف مظاہروں کا مرکز رہا تھا۔ جب بھی اسرائیل نے غزہ یا مغربی کنارے میں کارروائی کی تو یہ مظاہرے ہوئے۔ اس سفارت خانے کے باہر جمع ہونے والے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کو کئی بار آنسو گیس کے گولے داغنے پڑے۔

یہ بھی پڑھیں:غزہ میں قتل عام کے پیچھے امریکی حکمران ہیں: ولادیمیر پیوتن

اردن کی اخوان المسلمون کی قیادت میں آئندہ جمعے کو حماس کی حمایت میں مظاہروں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ حماس اردن کے شہریوں میں بہت مقبول ہے۔ امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

اردن 1946 ء میں آزاد ہوا:

یہ بات ذہن میں رہے کہ اردن 1946 ء میں آزاد ہوا تھا۔ اردن کا دارالحکومت عمان ہے۔ اس عرب ملک کی سرحدیں اسرائیل، مغربی کنارے، سعودی عرب، مصر اور عراق سے ملتی ہیں۔ 1948 ء میں جب عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی تو اردن نے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا۔

اسرائیل نے 1967 ء میں چھ روزہ جنگ میں مغربی کنارے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔سال 1988 ء میں اردن نے اس جگہ کو اپنی ملکیت قرار دینا چھوڑ دیا۔ 1994 ء میں اردن دوسرا عرب ملک تھا جس نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا۔

اردن میں بیس لاکھ فلسطینی پناہ گزین مقیم ہیں۔ شام کی جنگ شروع ہونے کے بعد تقریباً 14 لاکھ شامی مہاجرین نے بھی اردن میں پناہ لی ہے۔اردن کی کل آبادی 11 ملین سے زیادہ ہے اور یہاں عربی زبان بولی جاتی ہے۔اردن کے سربراہ شاہ عبداللہ دوم ہیں۔

اسرائیلی سفیر نے بحرین چھوڑ دیا:

دوسری جانب غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے جواب میں بحرین نے اس ملک سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔ بحرین کی پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ پر حملوں کے ردعمل میں اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔ بحرین نے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لایا تھا۔

بحرین کی پارلیمنٹ نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی سفیر نے بحرین چھوڑ دیا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات ٹھپ ہو گئے ہیں۔7 اکتوبر کو جنگ کے آغاز کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ 2020ء میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے تاریخی معاہدوں پر دستخط کرنے والے چار عرب لیگ ممالک میں سے کسی ایک نے اسرائیل کے خلاف ایسی کارروائی کی ہے۔

امریکا کی ثالثی میں ہونے والے اس معاہدے پر دستخط کے بعد سے بحرین اور اسرائیل کے تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جسے اسرائیل اور عربوں کے درمیان دس سال سے جاری کشیدگی کو کم کرنے کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا تھا۔

بحرین کا یہ اقدام ایسے عرب ممالک میں شدید عوامی غصے کے درمیان سامنے آیا ہے جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ امن قائم کیا ہے، لیکن فلسطینیوں کی حمایت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔