جبری گمشدگیوں کے حوالے سے کیس کی سماعت کل تک ملتوی
Image
اسلام آباد: (سنو نیوز) سپریم کورٹ نے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے کیس کی سماعت کل ساڈھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہئے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ کا حصہ ہیں۔ درخواستگزار خوشدل خان ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین نے 1974 میں لاپتہ افراد سے متعلق راستہ بتا دیا، لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے اپنا کام نہیں کیا، فیڈریشن اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی، عدالت حکم دے مسئلہ پر قانون سازی کروائی جائے، قانون سازی سے عدالتوں پر بوجھ کم ہوگا، وزرات داخلہ نے جسٹس جاوید کی زیر نگرانی کمیشن بنایا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا اس کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکنشن دیکھائیں؟ جسٹس ر جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کمیشن بنایا گیا لیکن اس نے اب تک کچھ نہیں کیا، عدالت حکومت کو نوٹس کر کے پوچھے کہ 50 سال سےلاپتہ افراد کے بارے قانون سازی کیوں نہیں کی؟۔ یہ بھی پڑھیں https://sunonews.tv/02/01/2024/pakistan/62569/ چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو؟ آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی صرف قانون کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پر آئے۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ تو اعتزاز احسن کے وکیل نہیں ہیں۔ جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ لطیف کھوسہ کا بیٹا گرفتار ہے تو مجھے وکالت نامہ دیا گیا ہے، ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کیے گئے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہا کہ اعتراضات کو خارج کر کے درخواستیں سن رہے ہیں کیونکہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، میری غیر موجودگی میں کچھ ہوا اور میں نے واپس آتے ہی یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے وکیل شعیب شاہین سے استفسار کیا کہ اعتزاز احسن نے درخواست میں کن تحفظات کا اظہار کیا۔ جس پر وکیل نے کہا کہ لوگوں کی گمشدگی اور پھر ایک طرح سے نمودار ہونے کا نقطہ اُٹھایا گیا۔ عدالت نے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم کیا کریں اپنی استدعا بتائیں۔ وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ کمیشن کب کا ہے تب کس کی حکومت تھی۔ جس پر وکیل نے کہا کہ 2011 میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران کمیشن بنا۔ چیف جسٹس نے وکیل شعیب شاہین سے استفسار کیا کہ اعتزاز احسن کیا اپنی ہی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کرنا چاہتے ہیں۔ جس پر وکیل نے کہا کہ کمیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق ابھی تک 2200 لوگ لاپتہ ہیں۔ جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کتنے لوگ بازیاب ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز احسن خود پیپلزپارٹی حکومت میں وزیر بھی رہے۔ وکیل شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ جب کمیشن بنا وہ شاید وزیر نہیں تھے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اعتزازاحسن کیا اس وقت بھی پیپلزپارٹی میں ہیں؟ جس پر وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ جی وہ ابھی پیپلزپارٹی میں ہیں۔ شعیب شاہین نے شیخ رشید، صداقت عباسی اور دیگر کی گمشدگیوں کا معاملہ اُٹھا دیا۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کیا یہ سب لوگ خود ہمارے سامنے درخواست گزار بنے ہیں؟ کیا یہ سب وہ لوگ ہیں جو خود وسائل نہیں رکھتے کہ عدالت آ سکیں؟ آپ اس معاملے کو سیاسی بنانا چاہتے ہیں تو یہ فورم نہیں ہے، جو شخص دھرنا کیس میں نظرثانی لا سکتا ہے کیا اپنا کیس نہیں لگا سکتا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے وکیل شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کل شیخ رشید کہہ دیں انھیں کوئی مسئلہ نہیں شعیب شاہین کون ہیں میرا نام لینے والا ؟ شیخ رشید خود کتنی بار وزیر رہ چکے؟ کیا آپ شیخ رشید کو معصوم لوگوں کی کیٹگری میں رکھیں گیے ؟ فرخ خبیب، عثمان ڈار، صداقت عباسی یہ لوگ کون ہیں؟ کیا اس بات پر رنجیدہ ہیں یہ پی ٹی آئی چھوڑ گیے؟ کیا ہم انہیں یہ کہیں یہ واپس پی ٹی آئی میں آجائیں؟۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یا تو کسی کو اعتزاز احسن کے سامنے اٹھایا گیا ہو تو وہ بات کریں، یا کوئی خود آکر کہے مجھے اغوا کیا گیا تھا تو ہم سنں، آپ ان کی جگہ کیسے بات کرسکتے ہیں ؟ شعیب شاہین کیا آپ ان کے گواہ ہیں؟ جس پر وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ پورا پاکستان گواہ ہے۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ ایسے ڈائیلاگ نہ بولیں، آپ نے صرف ایک پارٹی کے لوگوں کا ذکر کیا، یہ سب ہماری پارٹی چھوڑ گئے، اس کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں، ہم اس معاملے کو بہت سیریس لینا چاہتے ہیں۔ وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد کا معاملہ بھی ہم نے درخواست میں اٹھایا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے لیے عدالت کو استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اگر اپ ہمارا مذاق اڑائیں گے تو ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ محمد خان بھٹی کون ہے ؟ اور آپ سے کیا تعلق ہے ؟ جس پر وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ پہلے یہ لاپتہ تھے اب پیش کر دیے گئے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ کس منہ سے یہ بات کر رہے ہیں ؟ سیاسی پوائنٹ اسکو رنگ کی اجازت نہیں دے سکتے۔ وکیل شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ قومی اسمبلی سے جو بل پاس ہوا وہ غائب کر دیا گیا۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ بتائیں بل کس نے غائب کیا، چیئرمین سینیٹ نے غائب کیا ؟ آپ نے صادق سنجرانی کو پارٹی کیوں نہیں بنایا ؟ آپ صادق سنجرانی پرسنجیدہ الزام لگا رہے ہیں تو ان کو پارٹی تو بنائیں، آپ کی اپنی پارٹی کے شخص نے مسنگ پرسن بل غائب کر دیا۔ سپریم کورٹ نے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے کیس کی سماعت کل ساڈھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔