سُلگتے مسائل اور انتخابات
Image

سنو الیکشن سیل:(رپورٹ، ردا مریم) جب سے پاکستان بنا ہے تب سے لیکر آ ج کے دن تک بہت سے الیکشن ہوئے، بہت سے سیاستدان آئے اور گئے لیکن پاکستان کے لیے کس سیاست دان نے کتنا کام کیا ہے ، یہ ہم سبھی جانتے ہیں۔

یہاں بات ہم فیصل آباد کی صورت حال کی کریں تو یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ الیکشن ہونے سے قبل سیاست دان بہت سے وعدے کرتے ہیں لیکن کیا الیکشن جیتنے کے بعد بھی وہ اپنے وعدے پورے کرتے ہیں ؟

وطن عزیز کی ترقی کے چھہتر سالہ درخشاں دور کے اتنے ہی برس پاکستان کے مانچسٹر فیصل آباد اور سابقہ لائل پور کے حصے میں آئے۔ فیصل آباد کی سیاست میں پچاس سال قیام پاکستان سے پہلے کے ہیں، یوں ملے جلے سوا سو برس ٹھہرے۔

اتار چڑھائو کے گذشتہ 53برس ، بلکہ یوں کہیے کہ پتوں سے ایک برس اوپر خاصے اہم ہیں ۔ قیام پاکستان سے قبل کے پچاس اور بعد کے ابتدائی چند سال مسلم لیگ کے ، سن ستر تک ایوبی دور اور پھر قا ئد عوام کا پی پی پی (پاکستان پیپلز پارٹی)، ازاں بعد مسلم لیگ ن اور پھر حرف آخر پی ٹی آ ئی (پاکستان تحریک انصاف) کےنام مختلف ادوار رہے۔

ملکی تعمیر و ترقی کے اہم ترین ستون تعلیم ، صحت اورسڑکیں ٹھہریں ۔ جبکہ اہم ترین مسا ئل بھی اسی تکون کے حامل ہیں ۔ بقول شخصے ترقی کا سب سے زیادہ حصہ مسا ئل نے پایا۔ سکول اور ہا ئر سیکنڈری اسکول تک ڈبل شفٹ متعارف کروا کر پرا ئیویٹ سیکٹر کی علمی چیرہ دستیوں سے نجات دلانے کو کبھی بھی کوشش نہیں کی گئی ، سوا ئے ایک ادارے کے ۔ آبادی کی نہایت بڑی اکثریت کو پرا ئیویٹ تعلیمی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا سہرا سبھی سیاسی قا ئدین نے خوب کس کے باندھا۔

اب صحت کا پوسٹ مارٹم کیجیے ۔ سرکار کے سبھی اسپتالوں کے وارڈز اور باتھ رومز کی صفا ئی ستھرا ئی کا ذکر ہی شجر ممنوعہ ہے۔ جبھی تو سرکاری عما ئد ین اور سیاسی قا ئدین کا تانتا بندھا ہوتا ہے، سرکاری شفا خانوں سے شفا پانے کو ۔

کن سیاسی رہنما ئوں نے سی ٹی سکین مشینوں کی مرمت اور پاکستان کے تیسرے بڑے شہر کی آبادی کے حوالے سے مشینوں میں اضافی کے حوالے سےکوشش کی۔ ایمر جنسی وارڈز اور آئوٹ ڈور وارڈز کے سٹاف کے مسا ئل اور ان کے تدراک کے لیے سعی کی؟ اس سب کچھ کا جواب کارگردگی نہیں حسن کارگردگی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

https://sunonews.tv/31/12/2023/election-2024/62268/

اب روڈز کا ذکر خیر ہو جا ئے۔ اس زمرے میں تین بڑے مسا ئل پیدا ئشی ہیں اور حسب توفیق ہر دور میں روز افزوں تنزل ہیں ۔ آٹھوں بازاروں سمیت پورے شہر کے سبھی محلے تجاوزات کی بد ترین مثال ہیں،پارکنگ کی بد نما تصویریں صفا ئئی کے نام پر بد نما داغ ہیں۔

سبھی پرا ئیویٹ رہا ئشی اسکیموں میں سڑک پر سے مخصوص حد تک گھروں اور عمارتوں کی اونچا ئی ہے جبکہ باقی پورا شہر اس سے محروم ہے۔ تمام سیاسی اور انتظامی دماغ اس خوبصورت سوچ سے ’’مکمل طور پر‘‘ دور رہے۔

نتیجہ شہر کے اطراف زرعی زمینوں کی اوپری زرخیز ترین تہہ، شہر کی آبادیوں اور سڑکوں میں خودی بلند کرنے کو بچھا دی جاتی ہےہر سڑک اور گلی تعمیر نو کے مرحلے سے گزرنے کے دوران بلند سے بلندتر ہوتی چلی جاتی ہے صرف چند جیبیں گرم ہوتی ہیں اور پورا شہر ان کی نذر ہو جاتا ہے۔

دوسرا کینسر کارخانوں کا آلودہ کیمیائی پانی ہے جو اس شہر کےباسیوں کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔ ہر فیکٹری کم از کم کروڑوں سے اربوں روپے مالیت ہے اور چند لاکھ سے چند کروڑ تک اس نالے کی تعمیر کے لیے نہیں خرچ کر سکتی جو ان فیکٹریوں سے زہر کو اپنے اندر سمو سکے۔

سیورج سسٹم صرف ’’ ڈنگ ٹپا ئو ‘‘ کے زریں اصول کے تحت بچھتا اور منظوری کے مراحل طے کرتا ہے ۔ باقی سبھی جگہ آپ کو چشمے ابلتے دکھا ئی پڑیں گے ۔ سڑکوں پر پڑے کھڈے اور اوور ہیڈ برجز پر سے گزرتے ہو ئے دھچکے ہر سواری کو چوکس رکھتے ہیں ۔ منشیات کی باآسانی فراہمی اور کاروبار سونے پر سہا گہ ہے۔

خون جلاتے رہیے، جلتے کڑھتے رہیے ، ٹھنڈی اور گرم آہیں بھرتے رہیے، مقررین ،خطاب ، عما ئدین و قا ئدین اور سیاسی رہنما وں کے سر سبز باغات کی سیر کرتے رہیے۔ کیونکہ اسی کو دانشوروں نے قوم کا مقدر قرار دیا ہے ، بالکل ایسے ہی جیسے ہر پیٹ بھرا شخص فاقہ کش کو بتلاتا ہے کہ بھوک ، رب کی طرف سے اس فاقہ کش کی آزما ئش ہے۔