اسرائیل کی جارحیت: فلسطینی شہداء کی تعداد 8700 سے تجاوز
Image

غزہ: (سنو نیوز) اسرائیل نے غزہ پر اب تک کا سب سے بھیانک حملہ کر کے جبالیہ پناہ گزین کیمپ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ صیہونی فوج کی جارحیت میں شہداء کی مجموعی تعداد 8 ہزار 700 سے تجاوز کرگئی۔ جس میں 3 ہزار 542 بچے اور ایک ہزار 800 خواتین شامل ہیں۔

طاقت کے نشے میں چور اسرائیل نے خونریزی کی انتہا کر دی۔ گنجان آباد علاقوں پر بھاری بمباری کردی۔ صیہونی فورسز نے جبالیہ کیمپ کو 6 امریکی ساختہ بموں سے نشانہ بنایا، 6 ٹن بارودی مواد کے پھٹنے سے 20 عمارتیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔

غزہ کی پٹی کے انڈونیشین ہسپتال کے سامنے درجنوں میتیں سفید کفن میں لپٹی ہوئی رکھی ہیں جس کے بارے میں حماس کے زیرِ انتظام انکلیو میں صحت کے حکام نے کہا کہ فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی فضائی حملہ ہوا تھا۔

انہوں نے کہا اسرائیلی بمباری سے بری طرح زخمی ہونے والے مریضوں کے رش کی وجہ سے ہسپتال پہلے ہی جدوجہد کر رہا تھا تو طبی ماہرین نے راہداری میں ہی ایک آپریٹنگ روم قائم کر دیا کیونکہ مرکزی سرجیکل تھیٹر بھرے ہوئے تھے۔

تین ہفتوں کی شدید بمباری کے بعد اسرائیلی ٹینک غزہ میں داخل ہو گئے ہیں جہاں 2.3 ملین افراد آباد ہیں۔ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملے میں 8500 سے زیادہ افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں 3500 بچے بھی شامل ہیں۔

شمالی غزہ میں ہسپتال کے حالات خاصے سخت ہیں جہاں اسرائیل نے دس لاکھ لوگوں کو گھر بار چھوڑنے اور انکلیو کے جنوبی نصف حصے کی طرف جانے کا حکم دیا ہے جبکہ وہ وہاں بھی بمباری کر رہا ہے۔

ترکش فرینڈشب ہسپتال کے حکام نے بتایا کہ رات بھر ہونے والی بمباری سے کینسر کے مریضوں کا علاج کرنے والے ایک وارڈ کو نقصان پہنچا۔ یہ ہسپتال علاقے میں کینسر کے علاج کی واحد سہولت ہے۔ ڈاکٹر سوبی سکیک نے کہا کہ بمباری نے بہت نقصان پہنچایا اور کچھ الیکٹرو مکینیکل سسٹم کو خراب کر دیا۔ اس سے مریضوں اور طبی ٹیموں کی زندگیوں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کر دی ہے، بجلی کاٹ دی ہے اور یہ کہہ کر ایندھن کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے کہ حماس اسے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ ہسپتالوں نے متنبہ کیا ہے کہ جلد ہی جنریٹرز بند ہو سکتے ہیں جو زندگی بچانے کے کاموں کو برقرار رکھنے کے لیے درکار ہیں۔

سرجن معین المصری نے کہا کہ محدود ایندھن کی وجہ سے چند گھنٹوں میں بجلی منقطع ہو جائے گی، یہ انتہائی نگہداشت اور سرجیکل وارڈ میں مریضوں کی موت کا باعث ہو گا۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے ترجمان اشرف القدرہ نے کہا کہ انڈونیشین ہسپتال اور غزہ شہر کے الشفاء ہسپتال دونوں کے بڑے جنریٹر آج رات تک بند ہو سکتے ہیں۔

انڈونیشین ہسپتال زخمیوں اور لاشوں سے بھر گیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق لائے گئے افراد جھلسے ہوئے ہیں۔ وسطی غزہ میں نصیرات کیمپ پر اسرائیل نے میزائل داغ دیئے جہاں درجنوں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے۔ غزہ کے شمال میں واقع الشاطی کیمپ پر بھی حملہ کیا جہاں 10 فلسطینی شہید ہوئے۔

اسرائیل کی بمباری کا سب سے زیادہ نشانہ غزہ کے ننھے مکین بن رہے ہیں۔ اب تک 3 ہزار 542 بچے شہید ہوچکے ہیں۔ یونیسیف غزہ کو بچوں کا قبرستان قرار دے چکی ہے۔

ہر میزائل ان ننھے فلسطینیوں کے چیتھڑے اڑا دیتا ہے۔ ہر روز سیکڑوں خون آلود کفن اٹھائے جا رہے ہیں۔ یونیسیف نے غزہ کو بچوں کا قبرستان قرار دے دیا جہاں ہر دس منٹ بعد ایک ننھا فلسطینی صیہونی جارحیت کا نشانہ بن رہا ہے۔

پڑھنے کی عمر میں غزہ کے بچے دھماکوں کی گونج اور تباہی کے مناظر دیکھنے پر مجبور ہیں جس نے ان کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ معصوم ننھے فلسطینی پینے کے صاف پانی کیلئے بھی ترس رہے ہیں جس کی قلت انہیں موت کی جانب دھکیل رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے سفیر کے مطابق غزہ میں جاری بمباری کے باعث ہر پانچ منٹ بعد ایک فلسطینی بچہ شہید ہو رہا ہے۔ عالمی برادری کے سلامتی کونسل میں نمائندہ پندرہ ملکوں کو مخاطب کرتے ہوئے سفیر نے کہا کہ آپ مزید کتنے دن انتظار کرنا چاہتے ہیں جب آپ یہ تسلیم کریں گے کہ غزہ میں بچوں کے خلاف جنگ جاری رکھی گئی ہے۔ ؟

فلسطینی سفیر ریاض منصور جو اقوام متحدہ میں مستقل مبصر تعینات ہیں نے اپنی گفتگو میں بہت جذباتی انداز میں کہا ہمارے بچے بھی تم لوگوں کے بچوں ہی کی طرح ہیں۔ تمہارے بچے ( شاید) خدا کے بیٹے اور روشنی کے بیٹے ہیں ؟۔

فلسطینی سفیر کا کہنا تھا کہ تین ہفتوں کے دوران کم از کم 3500 فلسطینی بچے اسرائیل نے شہید کر دیے ہیں۔ یہ تعداد 2019 سے اب پوری دنیا کے جنگی اور بد امنی والے علاقوں میں سالانہ بنیادوں پر قتل کیے جانےوالے بچوں کی تعداد سے زیادہ ہو رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر یونیسیف کیتھرائن رسل نے فلسطینی سفیر کے سلامتی کونسل کے سامنے اس بیان کو تائید کے انداز میں دہراتے ہوئے کہا کہ جنگ میں اس نئی تیزی اور اضافے کی اصل قیمت بچوں کی زندگیاں جانے کی صورت ہو گی۔ وہ بچے جوبچے اس تشدد میں ہم سے کھو گئے یا جنہیں اس صورت حال نے ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

کیتھرائن رسل نے کہا کہ بچوں کی ہلاکت کی تعداد ایسی تعداد ہے جو ہم سب کو ہمارے اندر تک ہلا دیتی ہے۔