
لاہور:(سنونیوز) معروف پنجابی شاعر اور نغمہء نگار احمد راہی کومداحوں سے بچھڑے 21 برس بیت گئے۔احمد راہی کی پہچان پنجابی زبان میں بننے والی کام یاب فلمیں ہیں جن کے وہ مصنّف ہونے کے ساتھ ساتھ کئی فلموں کے گیت نگار بھی تھے۔ انھوں نے اردو زبان میں بھی شاعری کی اور غزلوں کے ساتھ ان کے فلمی گیت بھی مشہور ہوئے۔
نامور نغمہء نگار احمد راہی 13 نومبر 1923ء کو امرتسر کے ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام غلام احمد تھا۔ احمد راہی نے امرتسر میں ہی مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو، شاعر سیف الدین سیف، کہانی نگار اے حمید کی صحبت میں رہتے ہوئے ادب میں دل چسپی لینا شروع کی اور تقسیم کے بعد لاہور کے ادبی ماحول میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔
احمد راہی نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے یادگار فلمیں لکھی جن میں مرزا جٹ، ہیر رانجھا، ناجو، گُڈو، اُچّا شملہ جٹ دا مشہور ہیں جب کہ شہری بابو، ماہی مُنڈا، یکے والی، چھومنتر، الہ دین کا بیٹا، مٹی دیاں مورتاں، باجی، سسی پنوں اور بازارِ حسن نامی فلموں میں ان کے تحریر کردہ گیت ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔
احمد راہی کے ویسے تو بہت سے شعر شاندار تھے تاہم ان کا ایک شعر ان کی ادبی صلاحیتوں کا احاطہ کرنے کے لے کافی ہے۔ ہر ایک بات کے یوں تو جواب دئیے اس نے جو خاص بات تھی ہر بار ہنس کر ٹال گیا
پاکستان فلم انڈسٹری کی کامیاب ترین فلم ہیر رانجھا کا سریلا گیت "ونجلی والڑیا توں تاں موہ لئی او مٹیار"جسے نورجہاں نے اپنی آواز سے لازوال پہنچا ن بخشی یہ گیت احمد راہی کے قلم کی کوکھ سے پیدا ہواتھا۔
احمد راہی نے بہت سے کلام لکھے جنہیں پڑھنے والوں نے پسند کیا تاہم پنجابی کلام پر مشتمل مجموعہ ترنجن عوام الناس میں بہت زیادہ مقبول ہوا۔احمد راہی کا انتقال 2ستمبر 2002 کو لاہور میں ہوا۔
404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage