گائے کا دودھ یا کوئی اور، کون سا بہتر ہے؟ دودھ کے عالمی دن پر تحقیقی رپورٹ
Image

تمام ممالیہ جانوروں کی زندگی میں دودھ کی بہت اہمیت ہے۔ بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتی سے دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔ جانوروں کے بچے تھوڑی دیر بعد ماں کا دودھ چھوڑ دیتے ہیں اور پھر دوسرے جانوروں کی طرح دوسری چیزیں کھانے لگتے ہیں۔ لیکن ماں کا دودھ ترک کرنے کے بعد بھی انسانی بچے دوسرے ممالیہ جانوروں جیسے گائے، بھینس، بکری، بھیڑ وغیرہ کا دودھ پیتے رہتے ہیں۔

انسان واحد مخلوق ہے جو دوسرے جانوروں کا دودھ پیتا ہے۔ دودھ انسانی صحت خاص طور پر ہڈیوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ جبکہ نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ دوسرے جانوروں کا دودھ پینا غیر ضروری، غیر فطری اور نقصان دہ ہے۔

انسانوں نے تقریباً 11 ہزار سال پہلے گائے پالنا شروع کیا ۔ لیکن، انسانوں نے دودھ میں موجود لییکٹوز شوگر کو ہضم کرنے کی صلاحیت صرف دس ہزار سال پہلے تیار کی تھی۔

اس کا آغاز جنوب مغربی ایشیا سے ہوا جو رفتہ رفتہ یورپ تک پھیل گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں صرف 30 فیصد لوگ بالغ ہونے کے بعد بھی انزائم لییکٹیس پیدا کرتے ہیں۔

جب باقی لوگ بچپن میں ماں کا دودھ پینا چھوڑ دیتے ہیں تو ان کے جسم میں لیکٹیز انزائم کی پیداوار بھی رک جاتی ہے۔اس کے بعد یہ لوگ دودھ میں موجود شوگر لییکٹوز کو ہضم نہیں کر پاتے ۔ ردعمل ان کے جسم میں ہوتا ہے۔

یورپیوں، کچھ افریقی، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیائی لوگوں کو چھوڑ کر ، دنیا کی زیادہ تر آبادی کے انسانوں کو دودھ میں شکر کے لییکٹوز سے الرجی ہے۔ امریکہ میں یورپی نژاد آبادی کا صرف 9 فیصد دودھ ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

حالانکہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جیسے کہ صحت اور مویشی پالنے سے ماحول کو پہنچنے والے نقصانات وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں گائے کے دودھ کے متبادل کے طور پر پیش کی جانے والی ڈیری مصنوعات کی مارکیٹ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گائے کا دودھ چھوڑ کر اس کا متبادل آزمانا صحت کے لیے کتنا فائدہ مند ہے؟ کیا ہم گائے کے دودھ سے جو غذائی اجزاء حاصل کرتے ہیں ، وہ متبادل مصنوعات سے حاصل کر سکتے ہیں؟ اور، کیا دودھ پینے سے لییکٹوز الرجی والے لوگوں کو بدتر ہو جاتا ہے؟

گائے کا دودھ پروٹین اور کیلشیم کا بنیادی ذریعہ ہے۔ نیز اس کے ذریعے ہمیں وٹامن بی 12 اور آئوڈین بڑی مقدار میں حاصل ہوتی ہے۔ اس میں میگنیشیم بھی ہوتا ہے جو ہڈیوں کی نشوونما اور پٹھوں کے کام میں مددگار ہوتا ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ دودھ کی مصنوعات جیسے چھینے اور کیسین بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتی ہیں۔

برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کا کہنا ہے کہ ایک سال سے تین سال تک کے بچوں میں ہڈیوں کی درست نشوونما کے لیے روزانہ 350 ملی گرام کیلشیم لینا چاہیے۔ یہ صرف روزانہ ایک گلاس دودھ پینے سے حاصل ہوتا ہے۔

لیکن تحقیق مختلف نتائج پر پہنچی ہے کہ گائے کا دودھ بالغوں میں ہڈیوں کو صحت مند رکھنے میں کتنا موثر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کیلشیم ہڈیوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ لیکن زیادہ کیلشیم کھانا ہڈیوں کو ٹوٹنے سے روکنے میں مددگار ہے یا نہیں، یہ کہنا مشکل ہے۔

تحقیق بھی اس بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہتی ۔ بلکہ کچھ تحقیقی نتائج بتاتے ہیں کہ زیادہ دودھ پینے سے ہڈیاں ٹوٹنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

سویڈن میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جو خواتین روزانہ آدھے گلاس سے کم دودھ پیتی ہیں ان میں ہڈیوں کے ٹوٹنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے ۔ تاہم یہ تحقیق کرنے والے احتیاط کے ساتھ کہتے ہیں۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جن خواتین میں ہڈیاں ٹوٹنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے وہ زیادہ دودھ پیتی ہیں۔

لیکن، جوانی میں کیلشیم ہماری ہڈیوں کی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس عمر میں اگر ہماری ہڈیاں ٹھیک طرح سے نشوونما نہیں پا سکیں تو درمیانی عمر کے بعد ہمیں ہڈیوں سے متعلق مسائل ہونے لگتے ہیں۔ خاص طور پر خواتین اس کی کمی کو زیادہ محسوس کرتی ہیں۔

گائے کا دودھ یا کیمیائی دودھ

خواتین میں حیض کے بند ہونے کے بعد ان میں ایسٹروجن ہارمون کا اخراج بند ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہڈیوں کی مرمت کا کام سست پڑ جاتا ہے۔ اس لیے خواتین کی ہڈیاں بہت کمزور ہو جاتی ہیں۔

دودھ کے بارے میں صحت کے خدشات

حالیہ دہائیوں میں دودھ کے حوالے سے ایک اور تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ گائے حمل کے دوران بھی دودھ دیتی ہے۔ لیکن، اس دوران دودھ میں ایسٹروجن ہارمون کی مقدار 20 گنا زیادہ ہوتی ہے۔ ایسٹروجن کی اعلیٰ سطح کو کینسر سے منسلک کیا گیا ہے۔

محققین اس کا براہ راست تعلق چھاتی کے کینسر، بچہ دانی کے کینسر اور خواتین میں ہونے والے رحم کے کینسر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن امریکہ کی یونیورسٹی آف وسکونسن کی محقق لورا ہرنینڈز کا کہنا ہے کہ گائے کے ایسٹروجن دودھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خواتین کے دودھ میں بھی ہارمونز ہوتے ہیں۔

دودھ میں چکنائی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ زیادہ دودھ پینے سے دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ دودھ میں صرف 3.5 فیصد نرمی ہوتی ہے۔ ہلکے سکمڈ دودھ میں تقریباً 1.5 فیصد جبکہ سکمڈ دودھ میں صرف 0.3 فیصد نرمی ہوتی ہے۔ بغیر میٹھے سویا، بادام، بھنگ، ناریل، جئی اور چاول سے بنائے گئے مشروبات میں چکنائی کی مقدار دودھ سے کم ہوتی ہے۔

فن لینڈ یونیورسٹی کی پروفیسر جیریکا ویرٹینن کا کہنا ہے کہ دودھ میں پروٹین وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ جو لوگ بہت زیادہ دودھ پیتے ہیں ان کی بھوک دودھ سے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے وہ لوگ دوسری غذائیت والی خوراک نہیں لیتے۔ جس کی وجہ سے ان میں دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں، صرف دودھ پر جینا صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اگر اسے متوازن مقدار میں لیا جائے تو یہ بھی برا نہیں ہے۔ جو لوگ دودھ کو ہضم نہیں کر سکتے وہ بھی کبھی کبھار مناسب مقدار میں دودھ لے سکتے ہیں۔ یہ بات تحقیق میں بھی ثابت ہوئی ہے۔

اب بھی ایک بڑی آبادی ایسی ہے جو گائے کا دودھ پینا پسند نہیں کرتی اور دوسرے متبادل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سویا دودھ گائے کے دودھ کا بہترین متبادل ہے۔

یہ ایک ایسا ہی آپشن ہے، جس میں گائے کے دودھ کے برابر پروٹین ہوتا ہے۔ متبادل دودھ کی دوسری اقسام میں بہت سی خرابیاں ہوسکتی ہیں، جو بڑوں کے لیے تو ٹھیک ہیں لیکن بچوں کے لیے موزوں نہیں ہیں۔

امریکی ماہر غذائیت سینا گیلو کا خیال ہے کہ متبادل دودھ وہ تمام غذائی اجزاء فراہم کر سکتا ہے جو گائے کے دودھ میں دستیاب ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ ایک ہی مقدار میں ہوں۔ مثال کے طور پر بادام کے جو غذائی اجزاء ہمیں اسے چبانے سے حاصل ہوتے ہیں وہ بادام کے دودھ میں نہیں پائے جاتے۔

متبادل دودھ میں اضافی غذائی اجزاء شامل کیے جاتے ہیں۔ جبکہ وہ تمام عناصر قدرتی طور پر گائے کے دودھ میں پائے جاتے ہیں۔ وٹامن ڈی کے ساتھ گائے کا دودھ امریکہ میں محدود کر دیا گیا ہے۔ اس کے دیگر غذائی اجزا جیسے چکنائی وغیرہ مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ ایسی حالت میں گائے کا دودھ پینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ وٹامن ڈی وافر مقدار میں صرف دھوپ سے ہی ملتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کے لیے متبادل دودھ اچھا آپشن نہیں ہے۔ گائے کا دودھ ان کے لیے بہتر ہے۔

برطانیہ کی نیوٹریشن سائنسدان شارلٹ سٹرلنگ ریڈ کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے عوام کو ہدایات جاری کی جائیں کہ گائے کا دودھ بچوں کے لیے متبادل دودھ سے بہتر ہے۔ اگر بچوں کو گائے کے دودھ کے بجائے کوئی اور چیز کھلائی جائے تو ان کی صحت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

گائے کے دودھ میں قدرتی طور پر مٹھاس پائی جاتی ہے جبکہ متبادل دودھ میں مٹھاس کی آمیزش کی جاتی ہے جو کہ صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ تو یہ بھی تشویش کا باعث ہے۔ مارکیٹ میں متبادل دودھ کے بہت سے آپشنز موجود ہیں ۔ ایسی صورت حال میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کون سا دودھ پینا درست ہے۔ بعض اوقات غلط انتخاب لوگوں کی صحت سے کھیلنے کی طرح ثابت ہوتا ہے۔

اگر آپ متوازن غذا لے رہے ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون سا دودھ لے رہے ہیں۔ دودھ پینا یا نہ پینا ضروری نہیں بلکہ متوازن خوراک لینا ضروری ہے۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage