
حیفا میں ایٹمی تنصیبات کو ٹارگٹ کررہے ہیں ، یروشلم میں کئی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنا چکے ہیں ، اور قیصریہ میں نتن یاہو کے آبائی گھر کا نام ونشان تک مٹا ڈالا ہے ، یہ سب کچھ غیر معمولی ہے،اسی لیے دنیا کو حیران کررہا ہے اور کسی نہیں معلوم کہ دنیا کو حیران کردینےوالےمیزائل پروگرام کے لیے ایران نے کیسے کیسے وقت کیا کیا قیمت ادا کی ہے ۔
ایرانی میزائل پروگرام کے اس کٹھن اور پرخطر سفر کا آغاز 1984 میں ہوا، جب عراق سے جنگ کے دوران 35 کلومیٹر رینج والا ایرانی توپ خانہ عراق کے 300 کلومیٹر مار کرنے والے سکیڈ بی بیلسٹک میزائل سسٹم کے سامنے بے بس نظر آیا ۔ یہ وہ موقع تھا جب ایرانی قیادت کو مضبوط دفاعی میزائل سسٹم کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔
نومبر 1984 میں حسن تہرانی مقدم کی سربراہی میں پاسداران میزائل کمانڈ جبکہ امیر علی حاجی زادہ کی سربراہی میں ایرو اسپیس سکیورٹی فورس قائم کی گئی ، کمانڈ نے تیز رفتار ، زیادہ وار ہیڈ لے جانے والے اورطویل فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت کے حامل میزائلوں کے حصول پر فوری کام شروع کردیا۔
حسن تہرانی مقدم ایرانی قوم کو ناقابل شکست میزائل پروگرام کا تحفہ دینے والا ناقابل فراموش کردار ہے ، حسن مقدم بیش بہا قربانیوں کے بعد 12 نومبر 2011 کو ایک میزائل تحقیق کے دوران پراسرار دھماکے میں اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے تھے، جبکہ ایرانی میزائل پروگرام سے وابستہ دوسری اہم ترین شخصیت ایرواسپیس فورس کے سربراہ میجر جنرل امیرعلی حاجی زادہ حالیہ اسرائیلی حملے میں شہید ہوئے ،جنھوں نے شہادت سے ایک روز قبل ایران کو ایک اور تباہ کن میزائل دیا۔
حسن مقدم اور امیر علی حاجی زادہ کی سربراہی میں اگست 1984 میں ایرانی وفد نے شام اور لیبیا کا دورہ کیا ، شام نے ایران کو بیلسٹک میزائل دینے سے صاف انکار کردیا۔ حسن مقدم کی سربراہی البتہ لیبیا کے کرنل قذافی ایران کو روسی اسکڈ بی میزائل دینے پر تیار ہوگئے ۔
ایران نے لیبیا سے تیس اسکڈ بی میزائل خریدے، میزائلوں کی پہلی کھیپ کے ساتھ تکنیکی ماہرین کی ٹیم بھی تہران پہنچی۔ مارچ 1985 میں ایران نے اپنا پہلا اسکڈ بی میزائل عراقی شہر کرکوک میں تیل کا کنواں اڑانے کے لیے استعمال کیا، جنگ کے دوران ایران نے عراق کے خلاف121 اسکڈ بی میزائل فائر کیے گئے جن سے کافی تباہی پھیلی۔
عراق پر ایرانی میزائل حملوں نے عرب ملکوں کو تشویش میں مبتلا کردیا، عرب لیگ کے شدید احتجاج کے بعد کرنل قذافی نے اپنے مشیروں کو واپس بلالیا، لیبیا کے مشیروں نے جاتے جاتے سکڈ بی میزائلوں اور سسٹم کوبھی ناکارہ کردیا۔
1988 میں ایران کے میزائل پروگرام کا نیا دور شروع ہوا، جب شمالی کوریا نے ایران کو 100اسکیڈ بی میزائل فراہم کیے جبکہ چین نے درمیانی فاصلے تک مار کرنےوالے میزائل پر ایران کی مدد کی، بعد ازاں روس نے بھی ایرانی میزائل پروگرام کو آگے بڑھانے میں شامل ہوگیا۔
نیٹو کے اسلحہ کنٹرول پروگرام کے ڈائریکٹر ولیم البرک نے ایک وقت یہ اعتراف کیا کہ ایران ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ترقی یافتہ ملک ہے ، جس نے ریورس انجنیئرنگ کی مدد سے میزائلوں کے کام کرنے کے نظام کو سمجھا، اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایران کا میزائل پروگرام ریورس انجنئیرنگ کا شاہکار ہے۔
میزائل پروگرام کے پہلے مرحلے میں ایران نے نازعات اور مجتمع نامی راکٹ بنائے، اس کے فوری بعد ایرا ن نے چین کے بی 610 میزائل کو ری ڈیزائن کرکے ایرانی مارکہ تھنڈر 69 کا نام دیا۔
2000 کی دہائی میں ایران نے بیلسٹکس اور سٹیلائٹ انجن کی ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کیا، 2002 میں ایرانی میزائل پروگرام کے دوسرے مرحلے کا آغاز فتح ون ٹین کی تیاری سے ہوا۔
یہ وہ وقت تھا جب امریکی سی آئی اے نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ایران بیلسٹک میزائلوں کی تیاری میں کافی پیش رفت کرچکا ہے، فتح ون ٹین 3500 کلوگرام وزنی اورتقریباً نو میٹر طویل میزائل 200 کلومیٹر تک 500 کلو گرام وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت کا حامل تھا۔ 2004 میں فتح ون ٹین بی لانچ کیا گیا، جس کی رینج 250 کلومیٹر تھی۔
سکائی نیوز کے مطابق 2024 میں اسرائیلی حملوں کے جواب میں ایران نے فتح میزائل کا اپ ڈیٹ ورژن فائر کیا، نیا فتح میزائل اپنی آواز سے 15 گنا زیادہ اسپیڈ سے فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
2002 میں ہی متعدد ناکام تجربات کے بعد ایران نے شہاب تھری بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا، جس کی ابتدائی رینج 1000 کلومیٹر تھی جو اب بڑھ کر 2000 کلومیٹر ہے ،اسی سال امریکا نے ایران کومیزائل پروگرام میں مدد دینے والی مختلف سپلائی کمپنیوں پر پابندی عائد کردی۔
2003 میں امریکی سی آئی اے نے کانگریس کو بتایا کہ ایران اس وقت مشرق وسطیٰ میں بیلسٹک میزائلوں کا سب سے بڑا ذخیرہ رکھنےوالا ملک بن چکا ہے۔
ایران نے رعد کروزمیزائل کی تیاری کے دوران اینٹی شپ میزائل نور کے لیے ریڈار سینسر پر کام شروع کیا۔
2005 میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے ایران کو میزائل تیاری میں مدد دینےوالی ایرانی کمپنیوں کے اثاثے ضبط کرنے کا آرڈر دیا، 2006 میں ہی ایران نے ریڈار کو چکمہ دینےوالےصغیب میزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔
2006 میں سلامتی کونسل نے ایران کو جوہری مواد کی فراہمی پر پابندی عائد کردی ، تین ماہ بعد ایران روایتی ہتھیاروں کے لین دین پر بھی پابندی لگادی، لیکن پابندیوں کے اسی جمگھٹے میں ایران کا میزائل پروگرام جاری رہا۔
ایران نے اپنے میزائل پروگرام کو دنیا سے محفوظ رکھنے کے لیے 1984 میں ہی زیر زمین منتقل کردیا تھا، لیکن اس کا انکشاف 2014 میں ہوا۔ پاسداران انقلاب کا دعویٰ ہے کہ ایرانی میزائلوں کے زیر زمین تین شہر پانچ سومیٹر کی گہرائی میں کام کررہے ہیں،جہاں میزائلوں کی تیاری سے لے کر تجربات اور ذخیرہ تک کیا جاتا ہے۔
ایران کا میزائل پروگرام بڑے دشمن اسرائیل سے فاصلے کا احاطہ کرتا ہے، ایرانی بیلسٹک میزائلوں کی رینج 2500 کلومیٹر سے زیادہ ہے ،جبکہ ایرانی سرحد سے تل ابیب کا فاصلہ 1700 کلومیٹر ہے۔ ایران کے میزائل ذخیرے میں 9 مختلف قسم کے کرو، بیلسٹک اور ہائپر سونک میزائل موجود ہیں، جن کی فی گھنٹہ رفتار 6 ہزار ایک سو 25 کلومیٹر فی گھنٹہ سے 17 ہزارکلومیتر تک ہے۔
ایران کی نیم سرکاری خبر ایجنسی ’اسنا‘ کے مطابق ’سجیل’ نامی ایرانی میزائل 17 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 2500 کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے، میزائل ’خیبر‘ کی رینج 2000 کلو میٹر ہے اور ’حاج قاسم‘ 1400 کلو میٹر تک مار کر سکتا ہے۔
اسرائیل پر حالیہ حملوں میں غدر میزائل بھی استعمال ہوا، غدر ایس 1350، غدر ایچ 1650 اور غدر ایف 1950 کلومیٹر تک نشانہ بناسکتے ہیں۔ ایران نے اسرائیل پر1700 کلومیٹر رینج والا عماد گائیڈڈ میزائل بھی فائرکیا،جو مکمل رہنمائی کے تحت کنٹرول حالت میں اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ارنا کےمطابق جون 2023 میں تہران نے اپنا پہلا ہائپر سونک بیلسٹک میزائل تیار کیا، ہائپر سونک میزائل کم از کم آواز کی رفتار سے کم از کم 5 گنا زیادہ تیزی سے پرواز کر سکتا ہے اور ہوا میں اس کی پیچیدہ حرکت کی وجہ سے اسے مار گرانا بہت مشکل ہے۔ایران کے پاس کروز میزائل بھی ہیں جسے فضا سے لانچ کیا جا سکتا ہے اور یہ 3000 کلو میٹر تک جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایران اسوقت پچاس سے زیادہ اقسام کے راکٹ ، بیلسٹک ، کروز، ہائپر سانک میزائل اور ڈرونز تیار کررہا ہے، جن میں سے کچھ روس یوکرین جنگ ، حوثی کارروائیوں اور حماس کے آپریشنز میں بھی استعمال ہوچکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایران نے اپنی میزائل ٹیکنالوجی کو ترقی کی معراج پر پہنچا کر مشرق وسطیٰ میں جنگ کی کیمسٹری ہی نہیں بدلی،اسرائیل کے حق میں موجود طاقت کے توازن کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ایرانی میزائل اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ یہ اسرائیل کے سہہ جہتی جدید ترین ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم کو چکمہ دے کر اُس کے اسٹریٹجک اثاثوں پر برسے ہیں