پاکستان کے مین آف سٹیل نور خان کی زندگی کے ناقابل فراموش واقعات
 پاک فضائیہ کے ایئرمارشل نور خان نے اپنی زندگی میں ملک کے لیے وہ کارنامے سرانجام دیے جو واقعی ناقابل فراموش تھے ، جب وہ قومی ایئرلائن کے سربراہ بنے تو انہوں نے پی آئی اے کے طیارے کو بڑی مہارت سے ہائی جیک ہونے سے بچایا۔
فائل فوٹو
لاہور: (سنو نیوز) پاک فضائیہ کے ایئرمارشل نور خان نے اپنی زندگی میں ملک کے لیے وہ کارنامے سرانجام دیے جو واقعی ناقابل فراموش تھے ، جب وہ قومی ایئرلائن کے سربراہ بنے تو انہوں نے پی آئی اے کے طیارے کو بڑی مہارت سے ہائی جیک ہونے سے بچایا۔

20 جنوری 1978 کو پی آئی اے کا سکھرسے اڑنےوالا فوکر طیارہ پرواز کے کچھ ہی دیر بعد اغوا کرلیا گیا ،، ہائی جیکر نے پائلٹ کو جہاز کا رخ انڈیا کی جانب موڑنے کا حکم دیا لیکن پائلٹ نے فیول کی کمی کابہانہ بنایا اور طیارہ کراچی اتار لیا ، پھروہ ہوا جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔

ہائی جیکر کے دونوں ہاتھوں میں ڈائنامائیٹ تھا ، وہ اکیلا تھا لیکن خطرناک تھا اس لیے کہ اُس کے پاس اتنی مقدار میں دھماکہ خیز مواد ضرور موجود تھا جو جہاز کو آن ہی آن میں تباہ کرنے اور راکھ کا ڈھیر بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا، اس لیے باس کا حکم تھا کہ" سیکڑوں جانوں کا معاملہ ہے ، احتیاط بہت ضروری ہے"۔

سکھر سے اڑنے والی پرواز کے اغوا کی جب پہلی اطلاع آئی تو گھڑی کی سوئیوں پر چلنے والے باس دفتر میں پہلے سے موجود تھے اور اب جبکہ رات کے 12 بج رہے تھے تو باس ابھی اپنی کرسی پر ہی تھے، تین بجے دوپہر کو ہائی جیکر نے دھمکی دی کہ اگر اُس کے مطالبات پورے نہ کئے گئے تو وہ جہاز کو بم سے اڑاے دے گا، اُسے بتایا گیا" آج جمعہ ہے بینک بند ہے ،، اس کی مطلو بہ رقم کا انتظام ہورہا ہے"۔

ہائی جیکر سے تمام بات چیت باس خود کررہے تھے ، اُس سے پہلا رابطہ بھی باس نے کیا اور جہاز کی کھڑکی سے ابتدائی مذاکرات بھی باس ہی نے کیے تھے اور جب اُس نے جہاز کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی تو باس نے اُسے پیشکش کی وہ اپنی مانگیں پوری ہونے تک انہیں یرغمال بنا سکتا ہے لیکن ہائی جیکر نہ مانا ۔

اب تک سب کچھ اُن کی مرضی اور پلاننگ کے مطابق بالکل ٹھیک جارہا تھا، اکیلا ہائی جیکر مذاکرات مذاکرات کھیل کر تھک چکا تھا، یہ وہ خطرناک لمحہ تھا جب مسافروں کی حفاظت کے لیے ہائی جیکر کو امید کے ساتھ باندھ کر رکھنا ازحد لازمی تھا، اسی دوران باس ا پنی کرسی سے اٹھے اور کوٹ کاندھو ں پڑ ڈال کر کنٹرول روم کی باہر کی سمت بڑھے ، خدمت پر مامور عملہ سمجھا کہ " ڈیوٹی ختم ،صاحب گھر جارہے ہیں" ۔

لیکن باس دروازے کے قریب سے واپس سسٹم پرآئے اور مائیک آن کرکے ہائی جیکرسےبات چیت شروع کردی اور پھر سے اپنی پیشکش دہرائی ، اب کی بار ہائی جیکر مطالبات پورے ہونے تک باس کو بطور ضمانت یرغمال بنانے پرمان گیا اور یوں آئرن مین کو جہاز میں انٹری کا موقع مل گیا ، جہاز میں داخل ہوتے ہی آئرن مین نے ہائی جیکر سے پھر سے مذاکرات شروع کردیے ، یہ سلسلہ قریباً ساٹھ منت تک چلا ۔

اس دوران اچانک فولادی آدمی نے ہائی جیکر پر جھپٹا مار کر اُسے قابو کرنے کی کوشش کی ، ہائی جیکر نےبچنے کے لیے گولی چلا دی ، فائر آئرن مین کے پہلو میں لگا ، زخمی ہونے کے باوجود ہائی جیکر خود کو آئرن مین سے نہ چھڑواسکا ، یوں پی آئی اے طیارےکی سکھرسے شروع ہونےوالی ہائی جیکنگ اسٹوری تقریباً اٹھارہ گھنٹے بعد کراچی ائیر پورٹ پر اپنے اختتام کو پہنچی اور اس اسٹوری کے ہیرو تھے اُس وقت کے چیئرمین پی آئی اے ایئر مارشل ریٹائرڈ نور خان ۔

نو ر خان کو فضائی فورسز کی دنیا سے آئرن مین کا خطاب ملا ، عام لوگ انہیں خطروں کے کھلاڑی کے نام سے بھی جانتے ہیں ، اُن کے ساتھی انہیں فلائنگ ہاگ کہتے تھے ، نور خان کی بے خوفی کا یہ عالم تھا کہ برٹش دو ر میں ایک بار انہوں نے دریائے جہلم کے پل کے نیچے سے اپنا طیارہ گزار کر نوکری داؤ پر لگادی تھی ۔

1965 کی سترہ روزہ جنگ میں پاکستان نے انڈیا کے 110 طیاروں کو تباہ کیا تھا جن میں سے پی اے ایف نے 35 بھارتی طیاروں کو فضا میں اور 43 کو زمین پر نشانہ بنایا، اس بے مثال کارکردگی کا سبب بھی نورخان تھے جنہوں نے بطور سربراہ پاک فضائیہ کنٹرول روم سے نہیں کاک پٹ سے جنگ کی قیادت کی تھی ، نورخان جنگ کے دوران کئی کامیاب آپریشن میں شامل رہے تھے۔

چھ ستمبر 1965کی صبح جب انڈین افواج پاکستان کی جانب پیش قدمی کر رہی تھیں تو نور خان نے شاہینوں کو دشمن ایئر بیسز پر حملوں کا حکم دیا، شام تک پاکستانی شاہینوں نے انڈین ایئر بیسز پٹھان کوٹ، آدم پور، ہلواڑا اور جام نگر کو اجاڑ کردکھ دیا تھا، نور خان کی جارحانہ قیادت نے اسکواڈرن لیڈر سجاد حیدر اور ایم ایم عالم کو ریکارڈ ساز کامیابیاں سمیٹنے میں مدد دی ۔

نورخان بے خوف و بے خطر فوجی تو تھے ہی ساتھ ساتھ انتظامی امور کےبھی ماہر تھے، نور خان کو اللہ نے بھرپور کاروباری ذہانت سے بھی نواز تھا ، وہ ایک بے مثال خوبیوں والے شخص تھے ، جو اپنے اندر ایک جہاں رکھتے تھے ، درحقیقت وہ ایک ون مین آرمی تھے ، نور خا ن1967 کی عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ میں بطور رضا کار پائلٹ شریک ہوئے اور اپنی صلاحیتوں کے وہ جوہر دکھائے کہ اسرائیلی نائب ایئر چیف کو بھی نورخان کی تعریف کرنا پڑی ۔

آج جنگ ستمبر میں بے مثال کامیابیوں کا چرچا ہو یا پی آئی اے کے دور ِ عروج کی باتیں ، پاکستان ہاکی کا سنہرا دور ہو، کرکٹ کی دنیا میں پاکستان کا شہرہ ہو یا اسکوائش کورٹ پر پچیس سال تک پاکستان کی بلاشرکت غیرے حکمرانی، تمام کامیاب پراجیکٹس پر نور خان کے نام کی تختی آویزاں ملے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں 4 چھٹیاں ہونے کا امکان

70ء کی دہائی میں قومی ایئر لائن کو دنیا کی تیسری بڑی ائیر لائن کی حیثیت سے منوانا ریٹائرڈ ایئرمارشل نور خان کا بڑا کارنامہ تھا ، نورخان نے ایک شاندار انتظامی افسر اور کاروباری سو چ کے حامل سی ای او کی حیثیت سے پی آئی اے کو دنیا کی بڑی ایئر لائنز کے سامنے ایک سخت کاروباری حریف کے طور پر کھڑا کیا۔

پاکستان میں ہاکی کاسنہرا دور بھی ایئر مارشل ریٹائرڈ نور خان کی مرہون منت ہے ، نور خان کو ٹیلنٹ کی غیرمعمولی پہچان تھی ، اوریہی وجہ رہی کہ بطور پی ایچ ایف صدران کی بہترین صلاحیتوں کی حامل ٹیم نے پاکستان کو وکٹری اسٹینڈ سے نیچے نہیں اترنے دیا ۔

نور خان نے اسکوائش کے کھیل میں ترقی کے لیے کھلاڑیوں کی ہنٹنگ کی ، 1974 میں کولٹس سکیم شروع کی اورکئی باصلاحیت نوجوان اسکواش کھلاڑیوں کی تربیت اور سپانسرشپ کا انتظام کیا ، یہ اقدام اسکوائش کورٹ میں مسلسل پچیس سال تک پاکستان کی حکمرانی کا سبب بنا ۔

ایئرمارشل ریٹائرڈ نور خان 1989میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنے، ان کی جہاندیدہ نظروں نے بطور کپتان عمران خان کا انتخاب کیا ، نور خان کے اس فیصلے نے پاکستان کو کرکٹ ورلڈ کپ کا فاتح تو بنایا ہی بنایا بلکہ آئی سی سی کا اہم اسٹیک ہولڈر بننے میں بھی مدد دی ، عمران خان کو کپتان بنانے کے فیصلے سے ملک میں فاسٹ باؤلرز کی مقبولیت کا ایک طویل دور بھی شروع ہوا۔

نور خان کی کوششوں سے 1987 کے ورلڈ کپ کی پاک بھارت میزبانی بہت بڑا کارنامہ تھا جس نے کرکٹ پر برطانوی اجارہ داری نہ صرف ختم کیا بلکہ کرکٹ کو ایشیائی مارکیٹ کی پراڈکٹ بھی بنایا۔

ایئرمارشل نور خان 1928 میں پیدا ہوئے اور 88 سال کی عمر گزار کر دو ہزار گیارہ میں انتقال کرگئے ، نور خان وقت کی پابندی ، کم خوراکی ، شکر خداوندی اور بامقصد زندگی گزارنے کے ٹاسک کو اپنی فٹنس کا راز بتا تے تھے ، آئرن مین سانس کی ڈوری ٹوٹنے سے 72 گھنٹے پہلے تک آئرن مین ہی رہے اس لیے کہ ہسپتال داخل ہونے سے ایک روز پہلے تک وہ مارگلہ ہل پر 40 منٹ کی مارننگ واک کے لیے آتے رہے تھے ،اللہ انہیں غریق رحمت کرے ۔