بیروت جسے کبھی عرب دنیا کا پیرس کہا جاتا تھا
Beirut was once called the Paris of the Arab world
بیروت:(ویب ڈیسک)بیروت، جو شہری تباہی، تنازعات اور انارکی کا شکار بن چکا ہے، کبھی دنیا کے خوبصورت اور خوشحال شہروں میں شمار ہوتا تھا ۔
 
بیروت کا سنہری دور 1955 ءسے 1975 ء تک تھا۔ اس وقت بیروت مشرق وسطیٰ کا ثقافتی اور مالیاتی مرکز بن چکا تھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب عین المرسیح کے سمندری کنارے پر لگژری فائیو اسٹار ہوٹل کھلنے لگے تھے۔
 
سمیر کاسر اپنی کتاب  بیروت  میں اس شہر کے اس دور کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں،   قریبی ریو ڈی فنیسی میں راتوں رات نئے نائٹ کلب کھل گئے تھے، جہاں ہالی ووڈ کے ستارے، دنیا کے مشہور سوشلائٹس اور تیل کے کنوؤں کے مالکان آتے تھے۔ اور قریب ہی امریکن یونیورسٹی تھی جو پورے شہر کا ایک طرح کا فکری مرکز تھا۔
 
شاید بیروت کا سب سے مشہور نشان سینٹ جارجز ہوٹل تھا جسے مشہور فرانسیسی معمار اگست پیرے نے ڈیزائن کیا تھا۔
 
سال 1934 ء میں تعمیر ہونے والے اس ہوٹل کو دنیا کے مشہور لوگوں کی پسند بننے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔
 
سمیر کیسیر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ  مشہور فرانسیسی اداکارہ بریجٹ بارڈوٹ، پیٹر او ٹول، مارلن برانڈو، لز ٹیلر اور رچرڈ برٹن کو اس کی لابی میں ٹہلتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔  جیسے شاہی خاندان کے بہت سے لوگ اردن کے شاہ حسین اور شاہ رضا پہلوی کو ایران اکثر اپنی چھٹیاں اپنی بیوی ثریا کے ساتھ گزارتے تھے۔
 
 
 
لبنانی ماہر اقتصادیات جارجز کورم اپنی کتاب Fragmentation of the Middle East میں یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، "بہت سے لوگوں نے کم فلبی کو، جو شاید اس صدی کے سب سے بڑے ڈبل ایجنٹ ہیں، کو ہوٹل کے بار میں بیٹھے دیکھا۔ "
 
 ووگ  میگزین نے کہا کہ  اس وقت کے بیروت کا موازنہ کسی بھی جدید یورپی شہر سے کیا جا سکتا ہے۔ 
 
فنکاروں، شاعروں اور دانشوروں کا انتخاب:
 
بیروت کی حمرا اسٹریٹ کا موازنہ پیرس کے مشہور Champs-Elysées سے کیا جاتا ہے۔ یہاں خوبصورت فیشن اسٹورز، تھیٹر، بوتیک، ریستوران، کیفے اور ہوٹلوں کی قطاریں تھیں جہاں دنیا بھر کے فنکار، شاعر، دانشور اور ادیب جمع ہوتے تھے۔
 
صرف حمرا اسٹریٹ پر ایک درجن سے زیادہ سینما گھر تھے جن میں ایلڈوراڈو، پیکاڈیلی اور ورسائی خاص طور پر مشہور تھے۔
 
بیروت کے وسط میں پرانے بازار بھی تھے جہاں مقامی لوگ خریداری کرتے تھے۔ بیروت پر فرانس کا اثر فطری تھا کیونکہ یہ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے فرانس کے قبضے میں تھا اور اسے 1943 ء میں ہی آزادی ملی تھی۔
 
اسپورٹنگ کلب 1952ء  میں بیروت کے مرکز کے باہر کھولا گیا تھا، جہاں بیروت کے کامیاب تاجر تیراکی اور دوپہر کاک ٹیل کے لیے جاتے تھے۔ ساحل سمندر کے قریب واقع کیسینو ڈو لبان نا صرف دنیا بھر کے جواریوں کی پناہ گاہ تھا بلکہ ڈیوک ایلنگٹن جیسے پیانو بجانے والے اور جیک بریل جیسے گلوکار وہاں پرفارم کیا کرتے تھے۔
 
اس وقت بیروت بینکنگ، تجارت اور سیاحت کا مرکز تھا۔ بحیرہ روم کے مشرق میں کام کرنے والی کمپنیاں، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک لبنان کے دارالحکومت بیروت میں اپنا ہیڈکوارٹر زبناتی تھیں کیونکہ وہاں اچھے مواصلاتی ذرائع، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی کمی نہیں تھی۔
 
کئی فلموں کی شوٹنگ:
 
لبنان کے ایک طرف برف سے لدے پہاڑ تھے اور دوسری طرف خوبصورت ساحل تھے۔وہاں کے لوگ پوری دنیا سے آنے والے لوگوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار نظر آتے تھے۔
 
اس دوران پروان چڑھنے والے بہت سے لبنانی اب بھی گرمیوں کے موسم کو یاد کرتے ہیں جب سیاح بیروت آتے تھے۔ملک بھر میں ہریالی تھی اور کئی مقامات پر لوگ پکنک مناتے نظر آتے۔
 
ساٹھ کی دہائی میں فلمی ستاروں اور جاسوسوں کے درمیان بیروت کی تصویر کو ایک دلکش کھیل کے میدان کے طور پر بنانے میں سینما کا بہت بڑا کردار تھا۔سنیما پروڈکشن کمپنیوں کے لیے بیروت کی کشش اس کے لبرل ٹیکس سسٹم کی وجہ سے بھی تھی۔
 
50 ء کی دہائی میں لبنان ایک خوشحال ملک تھا، جس کی بنیادی وجہ اس کی لبرل معاشی پالیسی تھی، جس میں سماجی و اقتصادی ترقی کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔1965 ء کی فلم  24 آورز ٹو کِل  میں بیروت اور اس کے آس پاس کے مناظر کا بہترین استعمال کیا گیا۔
 
اس فلم میں نا صرف مکی رونی کی اداکاری لاجواب تھی بلکہ جدید بیروت اور اس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے، سینٹ جارجز ہوٹل اور کیسینو ڈو لیبن کے دلکش مناظر نے پوری دنیا کے شائقین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔
 
اس کے علاوہ  سیکرٹ ایجنٹ 777 ،  ویئر دی سپائز آر ،  ایجنٹ 505  جیسی کئی فلموں نے بیروت کو اپنی کہانی کا مرکز بنایا تھا۔
 
1975ء  سے ماحول بدل گیا:
 
1975 ء سے بیروت کا ماحول بدلنا شروع ہو گیا اور وہاں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔اگلے 15 سالوں میں بیروت میں ہونے والے تشدد میں تقریباً 150 ہزار لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور تقریباً 10 لاکھ لوگ بیروت چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
 
بیروت ایک طرح سے شہر کے وسط سے گزرنے والی گرین لائن کے ذریعے دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔مشرقی علاقہ مسیحی جنگجوؤں کا غلبہ تھا جب کہ مغربی علاقہ فلسطینی اور سنی جنگجوؤں کا گڑھ تھا۔
 
 بیروت کے سنہری دور کے بہت سے نشانات جیسے سینٹ جارجز ہوٹل خانہ جنگی میں تباہ ہو گئے۔ کبھی اس پر ایک لڑنے والے دھڑے کا قبضہ ہوتا تھا اور کبھی دوسرے دھڑے کا۔
 
 
 
1978 ءمیں شامی فوجی بیروت میں داخل ہوئے۔ جو مشرقی علاقے کو اپنی توپوں سے نشانہ بناتے تھے۔ 1982 ء کی لبنان جنگ کے دوران مغربی بیروت کا ایک بڑا حصہ اسرائیل کے کنٹرول میں تھا۔
 
1982 ء میں اسرائیل کے حملے کے بعد  آرامکو ورلڈ میگزین  میں بہت سے یورپیوں کے مضامین شائع ہوئے جن میں انہوں نے جنگ سے پہلے کے لبنان کو بیان کیا تھا اور اس کی بے گناہی، خوشحالی اور بھرپور معیشت کی تباہی پر دکھ کا اظہار کیا تھا۔
 
لیکن اس سب کے باوجود بہت سے لوگوں نے مشکل دنوں میں بھی بیروت میں پناہ لی۔ ان میں سے ایک اردو کے عظیم شاعر فیض احمد فیض تھے۔
 
جب جنرل ضیاءالحق کے دور میں فیض کا پاکستان میں رہنا مشکل ہو گیا تو انہوں نے بیروت میں بدامنی کے باوجود چند سال وہاں گزارے۔ وہیں رہ کر انہوں نے  لوٹس  میگزین کی ایڈیٹنگ کی۔
 
جب اسرائیل نے 1982ء  میں بیروت پر حملہ کیا تو وہ بیروت چھوڑ کر اپنے ملک واپس چلے گئے۔
 
شہر نے کئی تباہیاں دیکھیں:
 
 
ء1990 میں جنگ کے خاتمے کے بعد بیروت کی تعمیر نو کی کوششیں شروع ہوئیں اور شہر نے اپنی پرانی حیثیت دوبارہ حاصل کرنے کی طرف قدم بڑھائے۔ایشین کلب باسکٹ بال اور ایشین فٹ بال کے مقابلے وہاں منعقد ہوئے۔
 
یہی نہیں گذشتہ 25 سالوں میں تین بار بیروت میں مس یورپ مقابلے کا انعقاد بھی کیا گیا۔ سات سال قبل 2017 میں  ایگزیکٹو  میگزین نے لکھا تھا کہ لبنان ایک بار پھر سیاحوں کے لیے انتخاب بن رہا ہے۔
 
وہاں منعقد کیے گئے ڈیزائن اور آرٹ میلے بہت سے تخلیقی لوگوں کو وہاں پہنچنے کے لیے راغب کر رہے ہیں۔
 
 آرٹ نیٹ پوسٹ  میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ  بیروت شاید پناہ گزینوں کے مسائل، ناقص انفراسٹرکچر اور سیاسی عدم استحکام سے نبردآزما ہے لیکن وہاں کا آرٹ سین اب بھی بے مثال ہے۔ 
 
لیکن اس سب کے باوجود بیروت کے ماضی نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ بیروت کی تباہی ایک طرح سے اس کی پہچان بن گئی۔
 
کئی دہائیوں تک شہر ایک بحران سے دوسرے بحران میں منتقل ہوتا رہا۔ مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔
 
وہاں کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی۔ 4 اگست 2020 ء کو بیروت کی بندرگاہ پر ایک زبردست دھماکا ہوا جس میں 180 افراد ہلاک اور 6000 زخمی ہوئے۔
 
اس دھماکے سے شہر کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا اور تقریباً 3 لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے۔ بیروت پر تازہ ترین اسرائیلی حملے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ شہر ابھی تک تباہی سے نہیں بچا ہے۔