ذرائع کے مطابق الیکشن ٹربیونل آج وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز، حمزہ شہباز اور دیگر حلقوں کے کیسز کی سماعت کر رہا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ ریٹائرڈ جج رانا زاہد محمود کی زیرصدارت انتخابی عذرداریوں پر سماعت کی جارہی ہے،جبکہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے وکیل الیکشن ٹربیونل کے روبرو پیش ہو کر اپنا موقف پیش کر رہے ہیں۔سماعت کے دوران میڈیا نمائندوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے الیکشن میں 50 فیصد زائد ووٹ لینے والے امیدواروں کو کامیاب قرار دینے کی درخواست خارج کر دیا۔ عدالت نے درخواستگزار کو 20 ہزار جرمانہ عائد کر دیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے الیکشن میں 50 فیصد زائد ووٹ لینے والے امیدواروں کو کامیاب قرار دینے کی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کس آئینی شق کے تحت امیدوار کیلئے 50 فیصد ووٹوں کو لازمی قرار دیا جانے، الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں پر کامیاب امیدوار کا فیصلہ ہوتا ہے، ووٹرز ووٹ ڈالنے نہ جائے تو ان کا کیا ہو سکتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ پہلے بتایا جائے درخواست گزار کا کونسا بنیادی حق متاثر ہوا ہے، آئین کے کن آرٹیکلز کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر نیا قانون بنوانا ہے تو سپریم کورٹ کے پاس اختیار نہیں۔
درخواست گزار محمد اکرم نے موقف اپنایا کہ سارے بنیادی حقوق اس درخواست سے جڑے ہیں، ہماری زندگی کا فیصلہ پارلیمنٹ کرتی ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ زندگی کا فیصلہ تو پاریمنٹ نہیں کرتی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ تمام لوگوں کو ووٹ کا حق ہے، پولنگ کے دن لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں ووٹ ڈالنے نہیں جاتے، ووٹرز ووٹ نہ ڈالیں تو یہ ووٹرز کی کمزوری ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے فروری 2024 کے الیکشن میں ووٹ کاسٹ کیا۔ جس پر درخواست گزار محمد اکرم نے کہا کہ الیکشن میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ پھر آئین کی توہین کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے درخواست خارج کر کے درخواستگزار کو 20 ہزار جرمانہ عائد کر دیا۔ جس پر درخواست گزار نے کہا کہ جرمانہ کم ازکم 100 ارب کریں تاکہ ملک کا قرضہ کم ہو۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ 100 ارب کا جرمانہ دینے کی آپکی حیثیت نہیں۔