پی ٹی آئی نے جوڈیشل کمیشن میں شمولیت کیلئے 6 نام فائنل کر لئے
PTI flag
لاہور: (سنو نیوز) پی ٹی آئی نے جوڈیشل کمیشن میں شمولیت کے لیے 6 ناموں کی فہرست تیار کر لی۔

 پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے جوڈیشل کمیشن میں شمولیت کے لیے 6 ناموں کو فائنل کر لیا ہے جن میں ممتاز قانونی ماہرین اور سابق اراکین شامل ہیں، یہ اقدام پی ٹی آئی کی جانب سے ملکی عدالتی نظام میں شفافیت اور عدل کی بحالی کی کوششوں کا حصہ ہے۔

فہرست میں شامل کیے گئے ناموں میں بیرسٹر گوہر، علی ظفر، عمیر نیازی، عمر ایوب، اسد قیصر، لطیف کھوسہ اور علی محمد خان شامل ہیں، ان شخصیات میں سے بہت سے افراد نے پہلے بھی جوڈیشل کمیشن کے ممبر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دی ہیں جس کی وجہ سے ان کی تجربے اور مہارت کی بنا پر اس فہرست میں شمولیت کی گئی ہے۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ فہرست ایسے افراد پر مشتمل ہے جو نہ صرف قانونی میدان میں تجربہ رکھتے ہیں بلکہ ملکی مسائل اور چیلنجز کی گہرائیوں کو بھی سمجھتے ہیں، پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اقدام پارٹی کی جانب سے ملکی عدلیہ میں مثبت تبدیلیوں کے لیے ایک اہم قدم ہے۔

پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن میں شمولیت کے ذریعے وہ عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں، اگر یہ نام جوڈیشل کمیشن میں شامل کیے جاتے ہیں تو یہ عدلیہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

اس حوالے سے عوامی حلقوں مختلف ردِعمل سامنے آہا ہے، کچھ افراد پی ٹی آئی کی اس کوشش کو سراہ رہے ہیں تو دیگر کا خیال ہے کہ عدالتوں کی موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

ایک تجزیہ کار نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی یہ فہرست اس بات کا ثبوت ہے کہ پارٹی عدلیہ میں اصلاحات کے لیے سنجیدہ ہے، اور اس کے منتخب کردہ افراد کی مہارت اس عمل میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

جوڈیشل کمیشن میں شمولیت کے حوالے سے پی ٹی آئی کی یہ فہرست آئندہ ہفتوں میں حتمی شکل اختیار کر سکتی ہے، پارٹی کی جانب سے جلد ہی مزید معلومات فراہم کی جائیں گی۔

اس اقدام سے نہ صرف پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں میں خود اعتمادی بڑھی ہے بلکہ ملکی عدلیہ کی صورتحال پر بھی عوامی دلچسپی اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ نام مستقبل میں ملکی عدلیہ کی بہتری کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں خاص طور پر اس وقت جب ملک کو سیاسی اور قانونی چیلنجز کا سامنا ہے۔