پی ٹی آئی نےسپریم کورٹ سے ریلیف طلب کرلیا
PTI sought relief from the Supreme Court
اسلام آباد:(ویب ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پہلی بار سپریم کورٹ سے ریلیف مانگ لیا ہے۔
 
 پارٹی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے انٹرا پارٹی انتخابات نظرثانی کیس میں دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد اب عدالت یہ مقدمہ سننے کی مجاز نہیں ہے اور اسے آئینی بینچ کے سپرد کیا جانا چاہیے۔
 
پی ٹی آئی کی جانب سے ترمیم کی بنیاد پر مقدمہ منتقلی کا مطالبہ:
 
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ ترمیمی قوانین کے تحت اس کیس کو اب ایک آئینی بنچ کے سپرد کیا جائے۔ اس ترمیم کے بعد عام بینچ اس مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتا۔ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے نفاذ سے موجودہ عدالت کا اختیار محدود ہوگیا ہے اور معاملہ اب ایک آئینی نوعیت کا ہے۔
 
نیب ترامیم پر عمران خان کا مؤقف اور عدالتی ردعمل:
 
قبل ازیں، نیب ترامیم کے معاملے میں بھی پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے ریلیف طلب کیا تھا۔ نیب قانون میں کی گئی ترامیم کے بعد سب سے پہلی درخواست عمران خان کی جانب سے 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں بریت کے لیے دائر کی گئی تھی۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے 15 ستمبر 2023 کو ان ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا تھا، تاہم گزشتہ ماہ نظرثانی اپیل کے بعد عدالت نے یہ ترامیم بحال کر دیں۔
 
عمران خان کی ترامیم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش:
 
عمران خان نے پہلے ان ترامیم کی مخالفت کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ ترامیم پی ڈی ایم حکومت نے اپنی کرپشن بچانے کے لیے کی ہیں۔ ویڈیو لنک کے ذریعے عمران خان نے عدالت کو بتایا تھا کہ یہ ترامیم قومی مفاد کے خلاف ہیں۔ مگر جب سپریم کورٹ نے ان ترامیم کو بحال کیا تو عمران خان نے سب سے پہلے انہی ترامیم کی بنیاد پر نیب کیس میں بریت کی درخواست دائر کر دی۔
 
انٹرا پارٹی انتخابات کیس میں پی ٹی آئی کا ردعمل:
 
پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات نظرثانی کیس میں پارٹی کے سینئر وکیل حامد خان اور بیرسٹر علی ظفر نے مقدمے کے میرٹس پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔ حامد خان نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو متعصب قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس عدالت کے سامنے دلائل دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، جبکہ بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو مطلع کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد یہ عدالت کیس سننے کی مجاز نہیں اور اسے آئینی بینچ کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔
 
حامد خان کا چیف جسٹس پر عدم اعتماد اور آئینی بنچ کی تشکیل کا مطالبہ:
 
بعد ازاں، حامد خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی متعصبانہ رویے کے باعث وہ ان کے سامنے دلائل دینے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد یہ عدالت اس مقدمے کو سننے کا حق نہیں رکھتی، لیکن پی ٹی آئی آئینی بنچ کو تب تک تسلیم نہیں کرے گی جب تک چیف جسٹس اور چار سینئر ترین ججز اس کے رکن نہ ہوں۔
 
وکلاء کی طرف سے آئینی ترمیم کے خلاف تحریک چلانے کا عندیہ:
 
حامد خان نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ پی ٹی آئی اس آئینی ترمیم کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے اور وکلا برادری اس کے خلاف تحریک چلانے کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم نہ صرف عدالتی نظام پر اثرانداز ہو رہی ہے بلکہ انصاف کی فراہمی میں بھی رکاوٹ بن سکتی ہے۔