چیف جسٹس اور حامد خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ
PTI intra-party election review petition, Chief Justice and Hamid Khan exchanged bitter sentences
اسلام آباد:(سنو نیوز) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق نظرثانی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان کے درمیان شدید الفاظ کا تبادلہ ہوا۔
 
 کیس کے دوران فریقین کے مابین کئی بار صورتحال کشیدہ ہوئی اور عدالت میں دلچسپ مکالمے سننے کو ملے۔
 
حامد خان کا بنچ پر اعتراض:
 
سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے 3 رکنی بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ بنچ کیس کی سماعت نہیں کر سکتا کیونکہ پہلے ہی 13 رکنی بینچ سنی اتحاد کونسل کیس میں فیصلہ دے چکا ہے۔ انہوں نے بینچ کی موجودگی پر سوالات اٹھائے اور اس حوالے سے اپنا موقف پیش کیا۔
 
چیف جسٹس کا حامد خان پر ردعمل:
 
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حامد خان کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں نظرثانی ابھی زیر التوا ہے، اور ہم کوئی ایسا فیصلہ نہیں کریں گے جو پہلے سے زیر التوا ہو۔ انہوں نے حامد خان کو سوال کیا کہ آیا وہ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کو کوئی اعتراض ہے تو منہ پر کہیے، پیٹھ پیچھے باتیں نہ کریں۔
 
تلخ جملوں کا تبادلہ
 
اس مکالمے کے دوران، حامد خان نے جواب دیا کہ وہ دلائل پیش نہیں کریں گے، جس پر چیف جسٹس نے دوبارہ سوال کیا کہ آیا وہ کیس کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ حامد خان نے کہا کہ وہ بینچ کے سامنے دلائل دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ بینچ ان کے خلاف متعصب ہے۔ 
 
چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ وہ ایسے شخص کو پسند کرتے ہیں جو منہ پر بات کرتا ہے اور پیٹھ پیچھے نہیں۔
 
جسٹس مسرت ہلالی کا سوال:
 
اس دوران جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی جماعت کیوں انٹرا پارٹی انتخابات میں تاخیر کر رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کروانا تو ایک ہفتے کا کام ہے، اس میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟ جس پر حامد خان نے موقف اپنایا کہ ان کی جماعت نے انتخابات کروائے ہیں لیکن اسے کالعدم قرار دیا گیا ہے۔
 
علی ظفر کا ترمیم کا حوالہ:
 
کیس کے دوران بیرسٹر علی ظفر بھی روسٹرم پر آئے اور 26 ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بنچ اب اس کیس کو سننے کا اہل نہیں ہے اور ان کی جماعت اس بینچ کے سامنے دلائل نہیں دے گی۔ 
 
اس پر چیف جسٹس نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں کسی ترمیم کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے اور ہمارے سامنے ایسی کوئی بات نہیں آئی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہمیں نہ بتایا جائے کہ ہم کیا سن سکتے ہیں اور کیا نہیں۔
 
حامد خان کا متعصب ہونے کا دعویٰ:
 
حامد خان نے دوران سماعت دعویٰ کیا کہ بنچ ان کے خلاف متعصب ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ باہر جا کر تقریر کریں اور اپنے موقف کا اظہار کریں۔
 
 حامد خان نے مزید کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انتخابات ہوئے تھے اور عدالت نے انہیں کالعدم قرار دیا تھا۔
 
جسٹس محمد علی مظہر کا تبصرہ:
 
جسٹس محمد علی مظہر نے بھی حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی جماعت کا آئین انتخابات کے حوالے سے بہت شفاف ہے، یا تو آپ اس آئین کو تبدیل کریں یا پھر اس کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کروائیں۔
 
کیس کا مستقبل:
 
اس اہم کیس کے دوران دونوں طرف سے تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، جس نے سماعت کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے بنچ کی مخالفت اور متعصبانہ ہونے کے الزامات کے بعد یہ دیکھنا باقی ہے کہ آگے کیا کارروائی کی جائے گی۔
 
 چیف جسٹس نے معاملے کو گفتگو کی صورت میں حل کرنے کی پیشکش کی، لیکن وکلا نے اپنے موقف پر قائم رہنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
 
کیس کی سماعت کا اختتام:
 
سماعت کے اختتام پر دونوں فریقین کے درمیان تلخیاں کم نہ ہوئیں، اور معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ کیس کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں، لیکن حامد خان نے صاف طور پر کہہ دیا کہ وہ اس بنچ کے سامنے دلائل نہیں دیں گے اور نئے بنچ کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔
 
عدالت کی پیش رفت:
 
عدالت نے کیس کی سماعت کو آئندہ کے لیے ملتوی کر دیا اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی درخواست پر غور کرتے ہوئے نیا بنچ تشکیل دیا جائے گا۔