سپریم کورٹ: مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کا فارمولا طلب
Image
اسلام آباد: (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2018 ء اور 2024 ءکے انتخابات میں مخصوص نشستیں کیسے الاٹ کی گئیں، اس کا فارمولا اور دستاویزات طلب کر لیے۔
 
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
 
 اس کیس میں سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کے وکلا نے دلائل پیش کیے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دوران سماعت کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ اور فارم 66 ریکارڈ پر موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تحریک انصاف نے پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ اور فارم 66 جاری کیے جن پر چیئرمین گوہرعلی خان نے دستخط کیے تھے۔
 
سکندر بشیر نے مزید کہا کہ جب پی ٹی آئی نے یہ سرٹیفکیٹ اور فارم 66 جاری کیے تو انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو یہ سرٹیفکیٹ کاغذات نامزدگی کے ساتھ لگانے چاہیے تھے۔
 
جسٹس جمال مندوخیل نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ غلطی کہاں اور کس نے کی؟ جسٹس منیب نے پوچھا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ سرٹیفکیٹ غلط ہیں کیونکہ چیئرمین منتخب نہیں ہوا تھا؟ اس پر سکندر بشیر نے جواب دیا کہ کاغذات نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزاد امیدوار ہے، اور جب سرٹیفکیٹ جمع کرائے گئے تو چیئرمین منتخب نہیں ہوئے تھے، اس لیے کاغذات نامزدگی درست نہیں تھے۔
 
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یعنی امیدوار نے جو ظاہر کیا اسی پر کاغذات نامزدگی منظور ہوئے۔ جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا کہ آپ نے کاغذات نامزدگی میں پارٹی اسٹیٹس دیکھا یا خود ہی آزاد ڈیکلیئر کر دیا؟ 
 
اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ میں نے خود سے آزاد امیدوار ڈیکلیئر نہیں کیا، بلکہ کاغذات نامزدگی کو دیکھا اور حامد رضا کی درخواست دیکھی جس میں کہا گیا کہ آزاد امیدوار ڈیکلیئر کر دیں۔
 
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کا معاملہ کئی سالوں سے چل رہا تھا اور تحریک انصاف بار بار انٹراپارٹی انتخابات کے لیے وقت مانگ رہی تھی۔ بطور وزیراعظم درخواست دی کہ انٹراپارٹی انتخابات کے لیے سال دے دیا جائے۔ تسلیم شدہ بات ہے کہ پی ٹی آئی سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی۔ سپریم کورٹ پر مت ڈالیں، الیکشن کمیشن پہلے یہ دیکھ سکتا تھا۔
 
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ابتدائی طور پر سنی اتحاد کونسل کے لیے بھی مخصوص نشستوں کا تعین کیا مگر بعد میں سنی اتحاد کونسل کو نشستیں الاٹ نہیں کیں۔ اس پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا اسٹیٹس بھی کلیئر نہیں تھا۔
 
جسٹس منصور نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی حیثیت کسی سے کم نہیں، وہ کسی بھی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔  عدالت چاہتی ہے کہ کسی کو کم یا زیادہ سیٹیں نہ ملیں، جس سیاسی جماعت کا جو حق ہے، اسے ملے۔ 
 
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 51 کی تشریح کرتے وقت اتنے دن گزر گئے، کیا کچھ مشکل ہے سمجھنے میں؟ آئین کیسے بنا اور کیوں بنا، عدالت نے تبدیل نہیں کرنا۔ میرے سامنے جو آئین کا پیٹرن آئے گا، اسی طرح دیکھوں گا۔ حق کیا ہے؟ سپریم کورٹ نے آئین کو دیکھنا ہے۔
 
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فارمولا تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، جس کو الیکشن کمیشن چاہے، آزاد امیدوار بنا دے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آزاد امیدواروں نے چیلنج کیا؟ کیا ہمارے سامنے کوئی آزاد امیدوار آیا؟
 
جسٹس عائشہ ملک نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے 2022 ء اور 2024 ء میں ایک ہی معاملے پر دو متضاد فیصلے کرنے کا سوال اٹھایا اور کہا کہ سابق فاٹا کے کچھ ایم پی ایز کو صوبائی اسمبلی میں بی اے پی کا کوئی رکن نہ ہونے کے باوجود بی اے پی میں شمولیت کی منظوری دی گئی، اور پیشگی فہرست نہ ہونے کے باوجود مخصوص نشستیں بھی دی گئیں۔
 
 اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ وہ فیصلہ الیکشن کمیشن کے اجلاس کے بغیر کیا گیا تھا، جبکہ موجودہ فیصلہ پورے الیکشن کمیشن نے کیا ہے۔
 
عدالت نے 2018 ء اور 2024 ءمیں مخصوص نشستیں کیسے الاٹ کیے جانے کا فارمولا اور دستاویزات طلب کر لیے۔
 
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی غیر آئینی کام ہوا ہے تو سپریم کورٹ اسے ختم کر دے گی۔ الیکشن کمیشن نے اگر کوئی غیر آئینی کام کیا ہے تو بتائیں، الیکشن کمیشن کی کوئی حیثیت سمجھتا ہی نہیں۔ اگر دھاندلی ہوئی ہے تو جب تک کیس نہیں آئے گا، ہم نظرثانی نہیں کر سکتے۔ ہر انتخابات میں یہی بات ہوتی ہے، کسی نے آج تک نہیں کہا کہ الیکشن ٹھیک ہوا۔ ہارنے والا ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے۔ ہم ادارے کی قدر نہیں کرتے۔
 
بعد ازاں عدالت نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔