دماغی رسولی کی فوری تشخیص کا انقلابی طریقہ

فائیل فوٹو
May, 22 2025
لاہور: (ویب ڈیسک) دماغی رسولیوں کی تشخیص ہفتوں میں نہیں بلکہ چند گھنٹوں میں ممکن ہو گئی ، برطانوی محققین نے ٹیسٹنگ کا نیا طریقہ متعارف کروا کر طبی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔
محققین کے مطابق دماغی رسولییوں کی بروقت اور درست تشخیص اب صرف دو گھنٹوں میں ممکن ہو گئی ، یونیورسٹی آف ناٹنگھم کے سائنسدانوں نے نینو پور ٹیکنالوجی پر مبنی ایک جدید طریقہ کار تیار کیا ہے جس سے نئی قسم کی تھراپی کے امکانات کوبڑھایا جا سکتا ہے۔
بری ٹیومر چیریٹی کا کہنا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں 740،000 افراد میں برین ٹیومر کی تشخیص ہوتی ہےجن میں نصف کیس غیر کینسر زدہ ہوتے ہیں۔
حالات کے پیش نضر یہ نئی پیش رفت عالمی سطح پر لاکھوں مریضوں کے لئے امید کی نئی کرن ثابت ہو سکتی ہے۔
تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر میتھیو لوز کے مطابق تمام نمونے جانچ کیلئے جائیں گے، خاص طور پر جب آپ کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کیا دیکھ رہے ہیں
اس ٹیکنالوجی میں جھلیوں والے آلے استعمال کیے جاتے ہیں جن میں ہزاروں ننھے سوراخ ہوتے ہیں، ان میں سے ہر ایک سوراخ میں برقی رو گزاری جاتی ہےاور جب ڈی این اے ان سوراخوں کے قریب آتا ہے، تو اسے ان زپ کر کے ایک ایک تار کی صورت میں گزارا جاتا ہے جیسے ہی ڈی این اے کا ایک پٹا سوراخ سے گزرتا ہےتو وہ کرنٹ میں ایک خاص خلل ڈالتا ہے۔ یہ خلل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ڈی این اے کے کون سے بلڈنگ بلاکس وہاں موجود ہیں، اور ان میں کیا تبدیلیاں ہیں۔
رپورٹس کے مطابق ٹیکنالوجی کی سب سے اہم بات ہے کہ یہ ڈی این اے کو پڑھ سکتی ہے اور ترتیب دے سکتی ہے۔
مزید یہ کہ محققین نے ایک خاص سافٹ ویئر بھی تیار کیا ہے جو حاصل شدہ ڈی این اے ترتیب کا موازنہ مختلف اقسام کی دماغی رسولیوں سے کرتا ہے، یہ عمل اتنا تیز اور مؤثر ہے کہ سرجن کو سرجری کے فوراً بعد دو گھنٹے کے اندر اندر حتمی نتیجہ فراہم کیا جا سکتا ہے۔
قیمت کے لحاظ سے بھی یہ طریقہ قابل قبول یے۔
پروفیسر لوز نے بتایا کہ ایک نمونے کی جانچ پر تقریباً 400£ خرچ آتا ہے جو موجودہ جینیاتی ٹیسٹ کے برابر ہے، لیکن وقت کی بچت اسے زیادہ مؤثر بنا دیتی ہے۔
ابتدائی طور پر یہ طریقہ 30 پرانے مریضوں کے نمونوں پر آزمایا گیا، جن میں سے 24( 80%) کو 24 گھنٹوں میں درست طور پر شناخت کیا گیا۔ بعد ازاں اسے 50 نئے نمونوں پر بھی لاگو کیا گیا۔ جن میں سے 45 (90%) کو درست طریقے سے شناخت کر لیا گیا، جب کہ 38 (76%) نمونوں کو صرف ایک گھنٹے میں اعتماد کے ساتھ درجہ بندی کیا گیا۔
واضح رہے کہ اس کا مطلب مستقبل میں، مریض کی سرجری کے دوران ہی نہ صرف ٹیومر کی نوعیت کی شناخت ممکن ہوگی بلکہ ابتدائی علاج جیسے کیموتھراپی یا دیگر تھراپی بھی فوری طور پر شروع کی جا سکے گی۔
یہ پیش رفت نہ صرف برطانیہ بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں مریضوں کے لیے ایک نیا باب کھول سکتی ہے، جہاں بروقت تشخیص اور فوری علاج زندگی بچانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔