تحریر: حماد حسن
تقریباً ڈیڑھ صد ی پہلے جب اٹلی نے اس پر قبضہ کیا اس کا پرانا نام بھی تبدیل ہو گیا اور وہ اسمارا سے اریٹیریا بن گیا۔ لیکن نام کی تبدیلی کے با وجود بھی اس کی قسمت پر کوئی اثر نہیں پڑا یعنی غربت اور غلامی اس سے چمٹے رہے دوسری جنگ عظیم کے بعد اٹلی اپنے مسائل سے دوچار ہوا تو اریٹیریا ہمسایہ ملک ایتھوپیا کو سونپ کر چلتا بنا، ایتھوپیا نے اسے اپنا حصہ بنا کر خود میں ضم کر لیا اور یہاں سے ایریٹرین عوام نے اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کی۔
عیسٰی ایزا فورکی ان کا نیلسن منڈیلا اور EPLF (اری ٹیرین پیپلز لبریشن فرنٹ ) ان کے لئے ( ANC) افریقن نیشنل کانگریس بنے۔ آزادی کی طویل جدوجہد جاری رہی اور بالاخر 1991 میں ایریٹیرین لبریشن فرنٹ نے ایتھوپیا کو شکست دے دی اور آزادی حاصل کر لی لیکن بد قسمت ایریٹیرین عوام کو ایک دریا کے پار اتر کر ایک اور دریا کا سامنا کرنا پڑا۔ 1993 میں لبریشن فرنٹ کا لیڈر عیسٰی ایزا فورکی صدر بنا تو جنگ آزادی کا یہ ہیرو قہر کا دیوتا بن کر اپنی اصلیت دکھانے لگا اقتدار سنبھالتے ہی اس نے یہ اعلان کیا کہ اگلے تیس چالیس سال تک اری ٹیریا میں انتخابات نہیں ہوں گے اور تمام ریاستی طاقت کا منبع اور مرکز میری ذات ہی ہوگی۔اس کے بعد عوام کے تمام بنیادی حقوق معطل کیے گئے اور شہری آزادی بزور قوت چھین لی گئی اس دوران اگر کسی نے معمولی سی مزاحمت یا احتجاج کیا تو اس کے سامنے موت کے علاہ کوئی راستہ نہیں بچا۔
صحافی اور قلم کار اری ٹیرین صدر عیسٰی ایزافورکی کے ان جابرانہ اور غیر منصفانہ اقدامات کے خلاف حرکت میں آئے تو جبر کا اژدھا (اری ٹیرئن صدر) ان کی طرف پلٹا اور انہیں ہڑپ کرنے لگا اس نے ایک صدارتی حکم جاری کیا کہ جو بھی صحافی یا قلم کار مخالفت کرے گا تو عدالتی کارروائی یا ٹرائل نہیں ہوگا بلکہ صرف سزا سنائی جائے گی اور وہ بھی سخت سزا۔ دو ہزار ایک میں اس نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور ملک بھر میں آزادیٔ صحافت پر نہ صرف پابندی لگا دی گئی بلکہ ان اداروں سے وابستہ تقریباً تمام صحافیوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا، جہاں بہت سے صحافی مار دیے گئے۔
یو این انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن کے اعداد و شمار کے مطابق درجن بھر پرائیویٹ ٹیلی کمیونیکیشن کے ادارے بند کر دیے گئے، اور صرف ایک ہی کمیونیکیشن کمپنی قائم کردی گئی جس کا نام ایری ٹیل سب کمیونیکیشن کمپنی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کمپنی مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے اور یہ کمیونیکیشن کا واحد گیٹ وے ہے یعنی مواصلات کے تمام ذرائع بشمول ٹیلی وژن، ریڈیو انٹرنیٹ اور موبائل فون اسی گیٹ وے سے گزرتے ہیں جہاں ان ذرائع کو سختی کے ساتھ چیک کیا جاتا ہے۔
اس کے باوجود بھی اگر کسی پر معمولی سا شک پڑ جائے تو اسے عبرت کا نشان بننے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ پورے اریٹیریا میں صرف ایک فیصد لوگوں کی رسائی انٹرنیٹ تک ہے اور یہ ایک فیصد لوگ بھی وہ ہیں جو یا تو اریٹیریا کے جابر حکمران عیسٰی ایزا فورکی کے قریبی ساتھی ہیں یا دوسرے سرکاری عہدیدار جبکہ ننانوے فیصد باقی ایریٹیرین عوام کو اس سہولت یعنی انٹرنیٹ کے استعمال سے جبراً روکا گیا ہے تا کہ جابر حکمران اور نظام کے خلاف عوامی سطح پر رابطہ کاری اور موٹیویشن نہ ہو سکے۔
ان حالات سے تنگ یا خوفزدہ ہو کر بہت سے صحافی ملک چھوڑ گئے ہیں اور دوسرے ممالک میں خود ساختہ جلا وطنی اختیارکیے ہوئے ہیں۔ بعض سیاسی ورکر بھی چوری چھپے اریٹیریا سے نکل گئے ہیں یہ لیکن یہ لوگ دوسرے قریبی ممالک میں بیٹھ کر اپنے اپنے حصے کی شمع جلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے ان جلاوطن صحافیوں نے ریڈیو براڈ کاسٹ کے ذریعے خبریں دینے کی ایک کامیاب کوششش ضرور کی مگر جوں ہی حکمران طبقے کو پتہ چلا تو فوراً اس کے ریڈیائی سگنل جام کر دیے گئے لیکن شدید خوف اور ریاستی جبر کے باوجود بھی یہ سر پھرے اس سرنگ میں اپنا سفر اس امید پر جاری رکھے ہوئے ہیں کہ کہیں تو دوسرے سرے پر روشنی نظر آجائے گی۔رہا اریٹیریا کا جابر حکمران اور اس کی طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لئے غیر فطری اور ظالمانہ اقدامات تو ایسے ہتھکنڈوں سے کیا پہلے کیا کسی کو کامیابی ملی ہے جو اسے مل جائے گی؟
فقط اتنا ہوتا ہے کہ جبر اور جدوجہد کا وقت تھوڑا سا بڑھ جاتا ہے اور پھر اکیسویں صدی تو غضب ڈھاتی ہوئی آئی ہے۔بات کرنے اور کمیونیکیٹ کرنے کے لئے اتنے دریچے کھلے کہ گننا اور یاد کرنا مشکل ہے اور ہاں اگر ارادہ مضبوط اور جبر کے خلاف بات کرنا مقصود ہی ہو تو اسے روکنا مشکل ہی نہیں بلکہ انتہائی حد تک نا ممکن ہے، کیونکہ آزادی کے متوالے اور جبر کے باغی ایک بار اٹھیں تو زبانیں کھینچنے اور قلم توڑنے سے بھی بات نہیں بنتی۔
ہم نے تو ایک صدی پہلے ہی رومالوں پر ریشمی کشیدہ کاری کو بولتے اور قیامت ڈھاتے دیکھا تھا۔ اب تو زمانہ بھی وہ نہیں رہا لیکن کیا کیجئے کہ طاقت کی فطرت ہی یہی ہے کہ وہ ہر ایک کو انڈر اسٹیمیٹ ہی کر دیتی ہے اور غفلت ہمیشہ اسے لے ڈوبتی ہے۔ تاریخ کا سبق تو بہرحال یہی ہے کہ جبر کی تاریک سرنگ کی دوسری سمت راستہ بھی ہے اور روشنی بھی! صرف اخلاص ہمت اور جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر خود رو سبزے کی مانند یہ ثمربار فصلیں خود بخود جبر کے موسموں میں قدم قدم پر اگ آتی ہیں۔ امن انصاف اور آزادی کے سوغات لئے.
اور ہاں یاد رہے کہ سویلین ڈکٹیٹر فوجی ڈکٹیٹر سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتا ھے.
404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage