سلامتی کونسل کا اجلاس: چین کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ
Image

نیویارک:(ویب ڈیسک) یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے اور غزہ میں انسانی بحران کا ذکر کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں چین کے سفیر نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور تمام فریقوں سے سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق تحمل کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

ادھر دنیا کے سات بڑے اقتصادی ممالک کے رہنماؤں نے اسرائیل کے لیے اپنی ’مکمل‘ حمایت کا اعلان کیا ہے۔G7 کے رہنماؤں نے ایک آن لائن اجلاس کے اختتام پر ایک بیان جاری کیا، جس میں اسرائیل پر ایران کے حملے کی شدید مذمت کی گئی اور ایک بار پھر اسرائیل کی مکمل حمایت کا اظہار کیا ۔

جی 7 ممالک کے بیان میں کہا گیا ہے کہ " ایران اپنے اقدامات سے خطے کو عدم استحکام کا شکار کر رہا ہے اور یہ کنٹرول سے باہر بحران پیدا کر سکتا ہے۔ ہم استحکام لانے اور تشدد کو روکنے کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے۔

ادھر ایران کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ رات اسرائیل پر حملے سے 72 گھنٹے قبل پڑوسیوں اور خطے کے ممالک کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔ ایران کے خبر ٹی وی پر براہ راست نشر ہونے والی تقریر میں حسین امیرعبداللہیان نے کہا: "ہم خطے اور اپنے پڑوسیوں کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتے ہیں۔"

ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے میں جو ممالک امریکی فوجی اڈوں کی میزبانی کر رہے ہیں ان کو خبردار کیا ہے کہ ایران صرف "اپنے آپ کو جائز طریقے سے دفاع اور اسرائیل کو سزا دینا چاہتا ہے اور وہ خطے میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔"

اسی دوران امیر عبداللہیان نے خبردار کیا کہ اگر امریکا نے اسرائیل کے دفاع کے لیے خطے میں اپنے اڈے استعمال کیے تو یہ اڈے ایران کے حملوں کا نشانہ بن جائیں گے۔

دوسری جانب ایک بیان میں اسرائیل کے سفیر نے آیت اللہ حکومت کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے ہفتے کی شب اسرائیل پر سیکڑوں میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے 60,000 کلوگرام سے زائد بارودی مواد اور بم داغے۔

اسرائیل کے نمائندے نے ایران کے حملے کو پورے خطے کے لیے "خوفناک" قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ "اب سوچیں کہ اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کر لیتا ہے تو کیا ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ ایران یورینیم کی افزودگی کر رہا ہے۔ تصور کریں کہ اگر آیت اللہ خامنہ ای نے جوہری دھماکا کرنے کا حکم دیاہوتا"۔ اسرائیل کے نمائندے نے ایران کی مذمت اور اس ملک پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہاں تک کہ اس نے اقوام متحدہ سے ایران کو نکالنے کے لیے کہا

اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسرائیل کے نمائندے کی تقریر کے بعد اس ملک کی طرف سے اقوام متحدہ کو بھیجے گئے خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایران کا حملہ اپنے دفاع کا جائز حق ہے۔ ایرانی سفارتی عمارت پر اسرائیلی حملہ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی تھی اور ایران کے پاس اپنا قانونی حق استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

ایران کے نمائندے نے غزہ جنگ میں امریکا، فرانس اور برطانیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور موجودہ صورتحال کا ذمہ دار وائٹ ہاؤس اور اس کے اتحادیوں کو قرار دیا۔ اگرچہ ایرانی نمائندے نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں دعویٰ کیا کہ ان کے ملک نے اب تک "سب سے زیادہ تحمل" کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب "جواب دینے اور کارروائی کرنے کا وقت ہے"۔

ایران کے سفیر نے اسرائیل کی مکمل مخالفت کرتے ہوئے اس ملک کو خطے میں عدم استحکام کا بنیادی سبب قرار دیا اور ساتھ ہی اسرائیل کی حمایت کی وجہ سے امریکا اور برطانیہ کو "قابض حکومت" کا دوست قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایران کا خطے میں امریکا کے ساتھ جنگ ​​کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن اگر امریکا ایران، ایرانی عوام یا ان کی سلامتی اور مفادات کے خلاف فوجی کارروائی کرتا ہے تو اسلامی جمہوریہ متناسب طور پر آپ کے بنیادی حق کا استعمال کرے گا۔