اڈیالہ جیل کا نام گوگل میپ پر عمران خان سے منسوب
Image
راولپنڈی:(ویب ڈیسک)تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان، جو تقریباً ایک برس سے جیل میں ہیں، ان کی مقبولیت کا ایک نیا مظہر سامنے آیا ہے۔
 
 گوگل میپ پر اڈیالہ جیل کو عمران خان کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ اس اقدام نے عمران خان کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑا دی ہے، اور سوشل میڈیا پر اس کے چرچے ہیں۔
 
گوگل میپ پر اڈیالہ جیل کو عمران خان کے نام سے منسوب کرنے کی خبر تیزی سے پھیل گئی ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی صارفین اس پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ معروف صحافی صابر شاکر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ گوگل نے اڈیالہ جیل کو عمران خان کی لوکیشن سے منسوب کر دیا ہے۔ صارفین کو دعوت دی گئی کہ وہ خود سرچ کر کے عمران خان کے سیل کو دیکھ سکتے ہیں۔
 
 
سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے بھی گوگل میپ کی تصویر شیئر کی اور لکھا کہ "عمران خان کا ڈر ہے لیکن عمران خان تو ہو گا۔" ان کے مطابق یہ اقدام عمران خان کی مقبولیت کی ایک اور مثال ہے۔
 
 صحافی حسن ایوب خان نے بھی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "گوگل کو بھی بخوبی علم ہو گیا ہے کہ عمران خان کو ایک طویل مدت اسی اڈیالہ جیل میں رہنا ہے، اس لیے اڈیالہ جیل کو عمران خان سے منسوب کرنا بالکل درست ہے۔"
 
ایک صارف نے لکھا کہ "یہ عمران خان کو مائنس کرنے چلے تھے لیکن عمران خان تو ہو گا، اب تو گوگل نے بھی اڈیالہ جیل کی لوکیشن کو عمران خان کے نام سے منسوب کر دیا ہے۔"
 
 
 ایک دوسرے صارف نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ "مخالفین کچھ بھی کر لیں لیکن عمران خان کو مٹانا اب ان کے بس میں نہیں رہا۔"
 
عمران خان کی جیل میں موجودگی اور ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہ آنے کے باوجود تحریک انصاف میں اندرونی اختلافات بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔ مختلف مقدمات میں قانونی ریلیف حاصل کرنے کے باوجود عمران خان جیل سے باہر نہ آ سکے ہیں، اور اس دوران پارٹی میں بھی کئی اہم رہنما گرفتار ہوئے اور نئی قیادت ابھر کر سامنے آئی۔
 
مئی 9 کے واقعات کے بعد تحریک انصاف میں اختلافات بھی نمایاں ہو گئے ہیں، مگر عمران خان نے جو بیانیہ بھی اختیار کیا، وہ عوامی پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ 
 
 
گوگل میپ پر اڈیالہ جیل کو عمران خان کے نام سے منسوب کرنے کا واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ان کی مقبولیت اب بھی عروج پر ہے۔
 
یہ تازہ ترین اقدام عمران خان کے حامیوں کے لیے ایک حوصلہ افزا خبر ہے اور ان کی مقبولیت کی ایک اور مثال ہے۔
 
 اس کے باوجود، یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں یہ صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے اور عمران خان کی سیاست پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے۔