Homecolumnاکیسویں صدی کا سونا، سی پیک اور افغانستان

اکیسویں صدی کا سونا، سی پیک اور افغانستان

Dr Atif Ashraf

اکیسویں صدی کا سونا، سی پیک اور افغانستان

تحریر: ڈاکٹر عاطف اشرف

اکیسویں صدی کا نیا سونا،جو اگر آج ختم ہو جائے تو پوری دنیا کا کاروبار ٹھپ ہو سکتا ہے۔ چاندی کے رنگ کا وہ سونا جو عالمی طاقتوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لا سکتا ہے۔ یہ قیمتی دھات کہیں اور نہیں، پاکستان کے آس پاس ہی موجود ہے۔

آج کے جدید دور کے اسمارٹ فونز، ٹیبلٹ ، لیپ ٹاپ، کیمرے اور الیکٹرک گاڑیوں کی بنیاد بھی یہی قیمتی دھات جو پاکستان کے پڑوس میں پڑی ہے۔ یہ دھات کتنی ہے؟ اور کس کی پہنچ میں ہے؟ اس حوالے سے حقائق کافی دلچسپ ہیں۔

پوری دنیا پٹرول پر انحصار ختم کرکے بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنا رہی ہےلیکن ان گاڑیوں کی بیٹریوں کا انحصار جس دھات پر ہے وہ ہے لیتھیم۔ بیٹری چاہے کار کی ہو، کیمروں کی ،اسمارٹ فون کی یا کسی اور ڈیجیٹل گیجٹ کی، پوری دنیا میں اب تک نکالے گئے لیتھیم کا 80 فیصد استعمال صرف بیٹریوں میں کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال لیتھیم کی پیداوار بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ لیتھیم کی یہ کہانی کافی حد تک افغانستان سے جڑی ہے جہاں اس دھات کے ذخائر بڑی مقدار میں موجود ہونے کے مستند اشارے ملےہیں، تاہم ان کی کل مقدار ابھی تک نامعلوم ہے۔

جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ افغانستان کی معدنیات پر عالمی طاقتیں کب سے نظرین جمائے بیٹھی ہیں۔ چین کی طرف سے بھی افغانستان کو 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی جا چکی ہے۔ لیکن طالبان حکومت نے ابھی تک کوئی ہاں یا ناں نہیں کی۔ کیونکہ افغان حکومت کو پتہ ہے کہ لیتھیم کے ذخائر افغانستان اور پوری دنیا کے لیے بہت اہم ہیں۔

دنیا میٹاورس میں داخل ہو یا آرٹی فیشن انٹیلی جنس میں، ڈیجیٹل اور ورچوئل دور کی ساری زندگی جس ہارڈ ویئر کی بنیاد پر قائم ہو گی، وہ لیتھیم ہی ہے۔ چاندی کے رنگ کی ایک نرم سی دھات ہے جس کے معنی تو پتھر کے ہیں، لیکن یہ سٹون ڈیجیٹل ایج کواپنی گود میں لئے بیٹھے ہیں۔ یہ دھات صرف افغانستان ہی نہیں دنیا کے اور بھی بہت سے ملکوں میں پائی جاتی ہے۔امریکی جیولوجیکل سروے کے ایک اندازے کے مطابق دنیا میں لیتھیم کے 98تقریبا دس کروڑ ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

سیاسی لوٹے:پرانی کہانی نئے کردار، وہی فلم

سب سے زیادہ لیتھیم آسٹریلیا، برازیل، ارجنٹینا، چلی، چین، پرتگال اور امریکا میں پائی جاتی ہے۔ افغانستان کے لیتھیم ذخائر کے حوالے سے باقاعدہ اعدادو وشمار تو موجود نہیں لیکن امریکا افغانستان کو لیتھیم کا سعودی عرب سمجھتا ہے۔ یعنی ہو سکتا ہے کہ افغانستان لیتھیم کا سب سے بڑا ذخیرہ ہوکیونکہ فرق صرف اتنا ہےعرب ملکوں میں تیل پایا جاتا ہے،جو ماحول کو آلودہ کرتا ہے، لیکن لیتھیم صاف ستھری اورری نیو ایبل انرجی کا اہم حصہ ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین افغانستان سے ہی لیتھیم نکالنے میں دلچسپی کیوں لے رہا ہے؟ تو اس کا جواب جغرافیہ اور طلب میں چھپا ہے۔چین لیتھیم کے استعمال میں دنیا میں سب سے آگے ہےکیونکہ دنیا میں سب سے زیادہ الیکٹرک گاڑیاں چین میں ہی بنائی جا رہی ہیں۔چین کے لیے افغانستان سے لیتھیم لے کر جانا آسان بھی ہے کیوں کہ افغان صوبے بدخشاں کے ساتھ چینی صوبے سنکیانگ کی سرحد ملتی ہے۔

رہی بات امریکا کی تو افغانستان سے بھاگنے کے بعد امریکی کمپنیوں کے لئے اب دوبارہ طالبان کے ساتھ افغانستان میں کام کرنا آسان نہیں ہے ۔ لیکن آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ امن و امان کی خراب صورتحال کے باوجود چین لیتھیم کے لئے افغانستان میں اربوں ڈالر جھونکنے کو تیار ہے۔

وہ افغانستان جسے دنیا ایک غریب ملک سمجھتی ہے، خزانے کے اوپر بیٹھا ہے کیونکہ ماہرین افغانستان میں موجود ذخائر کی مالیت دس کھرب ڈالر بتاتے ہیں۔ اب آپ کے ذہن میں سوال آرہا ہوگا کہ قارون کے اس خزانے کا پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا تو اس کا جواب چین کی افغانستان میں لیتھیم کے لئے ہونے والی سرمایہ کاری میں چھپا ہے۔

اگرچین اور طالبان میں ڈیل کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا فوری فائدہ پاکستان کو ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کی چین تک رسائی پاکستان کے ذریعے ہی ممکن ہے کیونکہ یہاں پہلے ہی سی پیک کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔

پاکستان طورخم اور چمن بارڈر کے ذریعے افغانستان کی معدنیات چین کو فراہم کر سکتا ہے اور لیتھیم کی موجودگی میں سی پیک کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو تاکہ سی پیک سے افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک جڑ جائیں۔

طالبان حکومت کومعدنیات کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے جلد از جلد ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کی بنیاد رکھنا ہو گی۔ کیونکہ ماہرین پیش گوئی کر رہے ہیں کہ 2040ءتک دنیا بھر میں لیتھیم کی طلب چالیس گنا تک بڑھ جائے گی۔ چین پاکستان اور افغانستان کا تعاون خطے کی معاشی ترقی کے لئے اہم ہو سکتا ہے۔

Share With:
Rate This Article