اسرائیل اپنے تمام مقاصد میں ناکام ہو چکا ہے: اسماعیل ہنیہ
Image

دوحہ: (سنو نیوز) حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ نے اپنی تقریر میں، جس کا تحریری ورژن بعد میں صحافیوں کو فراہم کیا گیا، نے "اسلامی ممالک" سے مطالبہ کیا کہ وہ "فلسطینی مزاحمتی قوتوں کو ہتھیار" فراہم کریں۔ کیونکہ یہ صرف فلسطینی جنگ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک اسرائیل کو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان حالیہ جنگ 7 اکتوبر 2023ء کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے سے شروع ہوئی تھی۔ اس حملے میں 1200 افراد مارے گئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ حماس نے اس حملے میں 240 سے زائد افراد کو یرغمال بھی بنایا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ کم از کم 132 دیگر یرغمالی اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔ نومبر کے آخر میں، چھ روزہ جنگ بندی کے دوران، حماس نے اسرائیل کے زیر حراست 240 فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے میں 105 یرغمالیوں کو رہا کیا تھا۔ امریکا، اسرائیل، برطانیہ، یورپی یونین اور دیگر کئی ممالک نے حماس کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔

ادھر امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران اسرائیل پہنچ گئے ہیں۔ مسٹر بلنکن نے تل ابیب کے اپنے تازہ ترین دورے کے آغاز میں اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ سے بات کی۔ انہوں نے ایک بار پھر اسرائیل سے کہا کہ وہ غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے اور مسلسل امداد کے لیے ضروری شرائط فراہم کرے۔ وہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کرنے جا رہے ہیں۔

بلنکن غزہ میں قید بعض اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کریں گے اور ان کی رہائی کی کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے۔ انہوں نے اپنے تازہ ترین سفارتی دورے میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے رہنماؤں سے ملاقاتیں اور گفتگو کی۔

امریکی وزیر خارجہ کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب غزہ پر اسرائیل کا حملہ اور اس کا محاصرہ چوتھے مہینے میں داخل ہو چکا ہے۔ دریں اثناء جنوبی لبنان پر اسرائیلی ڈرون حملوں میں حماس اور حزب اللہ کے سینئر ارکان ہلاک ہو گئے ہیں۔

کشیدگی میں اضافے کے بعد، بلنکن نے کل سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات میں خطے میں تنازعات میں اضافے کے خلاف خبردار کیا۔ لبنان اور اسرائیل کے درمیان سرحد پر کئی مہینوں سے جھڑپیں جاری ہیں۔ تاہم، حزب اللہ کےسینئر کمانڈر وسام حسن تاول کے ساتھ ساتھ بیروت میں صالح العروری کی ہلاکت کے بعد، بیروت میں مکمل تباہی کا خدشہ ہے۔ خطے کے ممالک میں جنگ کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

غزہ میں حماس کے طبی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملے کے آغاز سے لے کر اب تک غزہ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 23 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے کل سعودی عرب میں اس بات پر زور دیا کہ یمن کے حوثی باغیوں کے تجارتی بحری جہازوں پر حملے اور بحیرہ احمر میں بین الاقوامی راستوں کو خطرے میں ڈالنا بند کیا جانا چاہیے۔

دریں اثناء چند گھنٹے قبل اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے نے سلامتی کونسل کے نام ایک خط میں حوثیوں کے بحری جہازوں پر حملوں میں ایران کے ملوث ہونے کے حوالے سے امریکااور اسرائیل کے الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔

غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے بعد خطے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے اور غزہ کے علاوہ مغربی کنارہ، لبنان، شام، عراق اور بحیرہ احمر بھی اس جنگ سے متعلق حملوں کی زد میں رہے ہیں۔ بحیرہ احمر کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ عوامی اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے ایران نے 3 جنوری 2024 ءکو اس خط میں لکھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس اجلاس میں کیے گئے بے بنیاد دعوئوں کی سختی سے مذمت اور سختی سے تردید کرتا ہے۔

اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے کے خط میں بحیرہ احمر کی صورتحال کو غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملے کا ایک نتیجہ بتایا گیا ہے۔ یمن کی حوثی ملیشیا، جو کہ ایرانی حکومت کی اتحادی ہیں، نے غزہ میں جنگ کے جواب میں اکتوبر سے بحیرہ احمر میں تجارتی بحری جہازوں پر حملے کیے ہیں۔ کئی معاملات میں، انہوں نے امریکی جہازوں پر حملے کیے، جو کامیاب نہیں ہوئے۔

ایک حالیہ اجلاس میں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بحیرہ احمر میں تجارتی جہاز رانی کے خلاف یمنی حوثی ملیشیا کے حملوں کا جائزہ لیا اور اس کے ارکان نے حوثیوں سے کہا کہ وہ اپنے حملے بند کر دیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی درخواست اور 12 ممالک کے اس بیان کے جواب میں جس میں انہوں نے یمن کی کارروائیوں کو بحیرہ احمر میں بین الاقوامی جہاز رانی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا، یمن کے انصار اللہ گروپ نے، جسے حوثیوں کے نام سے جانا جاتا ہے، ان کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطرہ فوجی کی وجہ سے ہے "امریکا کی طرف سے بحیرہ احمر کو کھودنا اسرائیل کی خدمت کرنا اور اسے غزہ کے خلاف جرائم جاری رکھنے کی ترغیب دینا ہے۔"