دمشق: شام کے دارالحکومت کی کہانی
Damascus: The Story of the Capital of Syria
دمشق:(ویب ڈیسک)گذشتہ ہفتے شام میں تیرہ سال کی خانہ جنگی کے بعد بالآخر باغی گروپ دارالحکومت دمشق پہنچ گئے اور صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔
 
یہ دمشق کی صدیوں پرانی اور طویل تاریخ کا ایک نیا باب ہے۔ مؤرخین جانتے ہیں کہ دمشق بہت پرانا شہر ہے لیکن وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اس مقام پر پہلی بار کوئی رسمی تہذیب کب وجود میں آئی۔
 
سال 1950 ء کے دوران کی گئی کھدائیوں میں ملنے والی باقیات سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ دمشق کے شمال مشرق میں واقع علاقہ  تل الشیح  میں چار ہزار سال قبل مسیح کے لوگ آباد تھے۔
 
قدیم شہر ابلہ (آج کا تل مردیخ) کے علاقے سے تین ہزار سال قبل مسیح کے مٹی کے برتن اور سلیٹ ملے ہیں جن پر  دمشق  لکھا ہوا تھا۔
 
اس شہر کے بارے میں ابتدائی معلومات مصر میں  تل عمارنا  کے علاقے سے کھدائی گئی مٹی کی سلیٹ سے حاصل کی گئی تھیں۔ 1490 قبل مسیح میں اس علاقے پر  تحتماس سوم  نامی فرعون نے قبضہ کر لیا۔
 
دمشق پہلی صدی قبل مسیح میں آرامی علاقے کا دارالحکومت بنا اور اس کا ذکر بائبل اور آشوری ریکارڈوں میں ملتا ہے۔ دمشق میں واقع مسجد اموی کی کھدائی کے دوران ملنے والے پتھر کے سلیب پر افسانوی کردار  ابوالحول  کا ذکر ہے۔
 
 آرامیوں  نے یہاں نہروں کا نظام بنایا تھا۔ انہوں نے شہر کے بہت سے علاقوں اور آرامی زبان کے نام دیے جو اسلام کی آمد تک موجود تھیں۔
 
قبل از مسیحی صدیوں کے دوران، دیگر دارالحکومتوں کی طرح، دمشق کو غیر ملکی حملہ آوروں نے فتح کیا، جن میں آشوریوں اور بابلیوں (عراق سے متعلق) کے ساتھ ساتھ فارس، یونان اور روم کے لوگ بھی شامل تھے۔
 
333 قبل مسیح میں سکندر اعظم کے حملے کے بعد دمشق رومی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ شہر کے شمال مغرب میں بنو امیہ کی شاندار مسجد کے قریب ایک رومی محل کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔
 
یہاں ایک چرچ ہے ، جہاں کہا جاتا ہے کہ عیسیٰ مسیح کے ساتھی  پال  نے دمشق میں عیسائیت قبول کی تھی۔
 
شام کے باقی حصوں کی طرح دمشق بھی چوتھی صدی عیسوی میں ایک عیسائی شہر بن گیا۔ 395 میں رومی سلطنت کے خاتمے کے بعد یہ بازنطینی سلطنت کے لیے ایک اہم قلعہ بن گیا۔
 
سیاسی، نظریاتی اور مذہبی اختلافات کی وجہ سے قسطنطنیہ کی تقسیم ہوئی اور چھٹی صدی میں فارسی-یونانی جنگ جو اکثر شام کی سرزمین پر لڑی جاتی تھی۔ اس جنگ سے ملک کی معاشی حالت تباہ ہو گئی۔ اس کے بعد دمشق نے سنہ 635 میں مسلم فوجوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔
 
دارالحکومت کے طور پر دمشق:
 
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق، اگرچہ عرب مسلمان اپنے ساتھ ایک نیا مذہب، مقدس کتاب قرآن، ایک نیا نظریہ اور قانونی نظام لے کر آئے، لیکن انہوں نے دمشق کی علاقائی ترتیب کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
 
661 میں اموی خاندان کے بانی معاویہ بن ابو سفیان نے شام کے دارالحکومت میں پہلی عدالت تعمیر کی۔ اس کے بعد تقریباً ایک صدی تک یہ شہر پھیلتی ہوئی سلطنت کا دار الحکومت رہا جو آج سپین سے لے کر چین کی سرحد تک موجود ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یہ اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت تھی۔
 
دمشق کی مسجد اموی اسی دور کے بارے میں بتاتی ہے۔ اسے اموی خلیفہ ولید نے 706 سے 715 کے دوران تعمیر کیا تھا۔
 
تاہم، اسے ماضی میں کئی بار نقصان پہنچا، آگ لگائی گئی اور دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ اس مسجد کو آج بھی اسلامی فن تعمیر کا عجوبہ سمجھا جاتا ہے۔
 
750 میں خلافت اموی کے زوال کے بعد عباسی خلافت نے بغداد کو اپنا دارالحکومت بنایا۔
 
اس طرح اسلامی سلطنت میں دمشق کی حیثیت صرف ایک علاقائی شہر تک محدود تھی۔ یہاں سے پیدا ہونے والی بہت سی بغاوتوں کی وجہ سے نئے حکمرانوں (خلافت عباسی) نے اسے دبا دیا۔ اس کے دور حکومت میں اموی دور کے آثار سمجھی جانے والی عمارتوں کی لوٹ مار اور شہر کی دفاعی دیواروں کو گرانے کا سلسلہ شروع ہوا۔
 
وقت گزرنے کے ساتھ، جیسے جیسے بین الاقوامی تجارتی راستے بدلتے گئے، دمشق نے وہ اقتصادی پوزیشن کھو دی جو اسے پہلے حاصل تھی۔ نویں صدی میں دارالحکومت بغداد سے قاہرہ منتقل ہونے کے بعد بھی یہاں کی صورتحال نہیں بدلی۔ گیارہویں صدی کے دوران دمشق فاطمی سلطنت کا حصہ بن گیا۔
 
گیارہویں صدی کے آخر میں صلیبی جنگوں نے ایک بار پھر شہر کو خطرہ لاحق کردیا۔ اگرچہ دمشق پر براہ راست قبضہ نہیں کیا گیا لیکن اس پر کئی بار حملہ اور محاصرہ کیا گیا۔
 
اس عرصے کے دوران شہر کے دروازے اور دیواریں دوبارہ تعمیر کی گئیں اور شہر کے شمال مغربی کنارے پر ایک محل تعمیر کیا گیا۔ بارہویں صدی تک شہر چھوٹی برادریوں میں تقسیم ہو گیا تھا جہاں ہر علاقے نے اپنی سہولیات کے انتظامات کیے تھے۔
 
انہوں نے اپنی مساجد، حمام اور تندور بنائے، پانی کا انتظام کیا اور بازار بنائے۔ اس کے باوجود مسجد اموی اور مرکزی بازار شہر میں اتحاد کی علامت بنی رہیں۔
 
نیا دور:
 
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق، دمشق کے لیے ایک نئے دور کا آغاز عثمانی شہزادے نورالدین زنگی کی آمد سے ہوا۔ اس نے 1154 میں اس شہر پر قبضہ کر لیا اور اسے اپنی طاقتور سلطنت کا دارالحکومت بنا لیا۔ صلیبی جنگوں کے دوران یہ ان کا فوجی اڈہ بھی تھا۔
 
شہر کی تزئین و آرائش کی گئی اور اس کی دفاعی صلاحیت کو دوبارہ مضبوط کیا گیا۔ بہت سی نئی عمارتیں تعمیر کی گئیں اور ایک نیا تعمیراتی انداز استعمال کیا گیا۔ دوسرے علاقوں سے گھر بار چھوڑنے والے لوگ یہاں آکر پناہ لی۔
 
فوجی اور معاشی نقصانات کے باوجود، صلاح الدین اور ایوبی جانشینوں کے کنٹرول میں آنے کے بعد شہر نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ اس نے یہاں 1260ء تک حکومت کی۔
 
دمشق کو تعلیم اور مذہب کا مرکز بنایا گیا جہاں شہزادے مذہبی تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ ایوبی سلطنت مسجد اموی اور جبل قاسیون کے ارد گرد قائم کی گئی تھی جہاں کرد نسل کے لوگ فوج میں خدمات انجام دینے لگے تھے۔
 
سنہ 1260 میں منگولوں نے دمشق اور شام کے کئی علاقوں پر حملہ کیا جس کی وجہ سے اس کی معاشی حالت بہت خراب ہو گئی۔ جب مملوک سلاطین (ایوبی سلطنت سے وابستہ) نے مصر پر قبضہ کیا تو انہوں نے منگولوں کو بھی شکست دی جس سے شہر کی معاشی حالت بہتر ہوئی۔
 
چودھویں صدی کے دوران دمشق شہر حوران روڈ کے ساتھ جنوب میں فلسطین اور مصر کی طرف پھیل گیا۔ اسی راستے سے شہر سے کھانے پینے کی اشیاء اور پرتعیش اشیاء کی تجارت ہوتی تھی۔
 
جنگ اور تباہی:
 
ڈیڑھ سو سال تک دمشق مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جنگ کا مرکز رہا۔ چار مشہور مسلم حکمران، زنگی، صلاح الدین، العدیل (صلاح الدین کے بھائی) اور مملوک سلطان بیبرس مسجد کے قریب دفن ہیں۔
 
ان کے مقبرے شہر کے قدیم ترین مقامات میں سے ہیں جنہیں 90 ءکی دہائی میں سجایا گیا تھا۔
 
مملوک کے دور میں دمشق نے دو بار تباہی دیکھی۔ سب سے پہلے 1348 ءسے 1349 ءتک یہاں ایک وبا ءپھیلی جس میں شہر کی آدھی آبادی مر گئی۔ پھر 1401 ءمیں امیر تیمور کی شام کی فتح کے دوران شہر میں قتل عام اور لوٹ مار دوسری بڑی تباہی تھی۔
 
ان تباہیوں نے شہر کی معیشت کو کمزور کیا اور اس پر بہت برا اثر پڑا۔ 15ویں صدی کے دوران تعمیراتی کام میں اضافہ ہوا، لیکن اس توسیع کی وجہ غریب دیہی علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی تھی۔ عثمانی دور کی دستاویزات کے مطابق شہر میں کئی کھنڈرات موجود تھے جو شہر کے دیوالیہ ہونے کا ثبوت تھے۔
 
خلافت عثمانیہ اور دمشق:
 
خلافت عثمانیہ کے دوران دمشق اپنی سیاسی حیثیت کھو بیٹھا لیکن اس کی تجارتی اہمیت برقرار رہی۔
 
مشرق وسطیٰ اور بلقان کے انضمام کی وجہ سے اندرونی تجارت میں اضافہ ہوا لیکن یورپی غلبے کی وجہ سے شام کے شہروں کا کردار تجارتی ڈپو تک محدود رہا۔ عثمانی دور میں حج کے موسم میں دمشق میں معاشی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔
 
اپنے آپ کو مکہ اور مدینہ کے محافظ کہلانے والے عثمانی دور کے سلاطین نے حج کے نظام کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ دمشق اناطولیہ (ایشیا مائنر) سے مکہ کے راستے میں ایک شہری مرکز تھا، جو شمال اور مشرق سے آنے والے عازمین حج کے لیے بھی ملاقات کی جگہ بن گیا تھا۔ اس لیے حج کے موسم میں عازمین کی موجودگی کی وجہ سے شہر میں معاشی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔
 
اس طرح تعمیر و ترقی کا کام بھی انہی سڑکوں پر ہوا جو مکہ تک جاتی تھیں۔
 
انیسویں صدی:
 
تعمیراتی کام کا عروج العزم خاندان کے دو افراد سلیمان پاشا اور اسد پاشا کے ذریعہ اموی مسجد کے جنوب میں دو بڑی جگہوں کی تعمیر سے مکمل ہوا۔ اٹھارویں صدی میں سیاسی منظر نامے پر ان کا غلبہ تھا۔
 
انیسویں صدی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ مصری حکمران محمد علی پاشا نے 1832 ء سے 1840 ء تک شام کا کنٹرول سنبھالا اور جدیدیت کے عمل نے یورپی طرز زندگی کو فروغ دیا۔
 
یورپی طاقتوں کی مدد سے عثمانیوں کے انخلاء کے بعد مقامی معیشت پر یورپی غلبہ بڑھ گیا، لیکن جدید کاری کا کام سست پڑ گیا۔ 1860 ءکی دہائی میں، پرتشدد مذہبی جذبات خطے میں براہ راست یورپی مداخلت کا باعث بنے، خاص طور پر موجودہ لبنان میں۔
 
عثمانی مصلح مدحت پاشا 1878 ء میں گورنر بنے۔ انہوں نے شہر کی حالت بہتر بنانے، گلیوں کو چوڑا کرنے اور نکاسی آب کو بہتر بنانے پر کام کیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جرمن انجینئروں نے دمشق-مدینہ ریلوے تعمیر کی جس سے عازمین حج کے سفر کا وقت صرف پانچ دن رہ گیا۔
 
بیسویں صدی:
 
پہلی جنگ عظیم کے دوران، دمشق عثمانی اور جرمن فوجیوں کا مشترکہ ہیڈ کوارٹر تھا۔ جنگ سے پہلے اور اس کے دوران، دمشق میں عرب قوم پرستی نے زور پکڑا اور دمشق خلافت عثمانیہ تحریک کا مرکز بن گیا۔ مکہ کے حکمران فیصل نے عرب بغاوت کی حمایت کے لیے یہاں کا خفیہ دورہ کیا۔ فیصل کے والد نے یہ تحریک 1916 ءمیں شروع کی تھی۔
 
جوابی کارروائی میں عثمانی کمانڈر ان چیف جمال پاشا نے 6 مئی 1916 ءکو 21 عرب قوم پرستوں کو پھانسی دی اور آج بھی یہ دن  یوم شہدا  کے طور پر منایا جاتا ہے۔
 
برطانیہ اور عربوں کے مشترکہ حملے سے عثمانیوں کو شکست ہوئی اور ستمبر 1918 ءمیں شہر کو خالی کر دیا گیا۔ 1919 ءمیں ایک آزاد شام کا اعلان کیا گیا تھا، جس کا دارالحکومت دمشق تھا، اور فیصل کو 1920 ءکی دہائی کے اوائل میں بادشاہ قرار دیا گیا تھا۔
 
فیصل کا دور زیادہ عرصہ نہ چل سکا کیونکہ پہلی جنگ عظیم کے دوران یورپی طاقتوں نے سلطنت عثمانیہ کے صوبوں کو آپس میں تقسیم کرنے کا خفیہ منصوبہ بنایا تھا۔
 
اس کے بعد شام پر فرانس کا قبضہ ہو گیا اور میسالون کی جنگ کے بعد یہ 25 جولائی 1920 ء کو جنرل ہنری گوراؤڈ کی فوج کے ہاتھ لگ گیا۔
 
دمشق نے فرانسیسی قبضے کے خلاف مزاحمت کی، اور 1925ء میں شہر پر فرانسیسی بمباری کے باوجود، مزاحمت 1927 ءکے اوائل تک جاری رہی۔
 
اس کے بعد ایک نیا شہری منصوبہ بنایا گیا۔ پرانے شہر کے ارد گرد ایک جدید رہائشی علاقہ بنایا گیا تھا۔ غوطہ کا وہ علاقہ جہاں شامی باغی باقاعدگی سے پناہ لیتے ہیں۔
 
اس جدید شہر میں یورپ کے سماجی، ثقافتی اور تعمیراتی انداز نے روایتی طرز زندگی کو چیلنج کیا اور بالآخر روایتی زندگی کمزور پڑ گئی۔
 
شام پر فرانسیسی قبضے نے سنجیدہ سیاسی سرگرمیاں دیکھی، جن میں لبرل ازم، کمیونزم اور عرب قوم پرستی شامل ہے۔
 
دمشق کے شہریوں نے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مل کر اپنے ملک کی آزادی اور واحد عرب ملک ہونے کے وسیع تر مقصد کے لیے جدوجہد کی۔ اس مقصد کے لیے بنائی گئی بعث پارٹی کی بنیاد دوسری جنگ عظیم کے دوران دمشق میں رکھی گئی تھی۔
 
فرانسیسی فوجیں بالآخر اپریل 1946 ء میں ملک سے نکل گئیں اور دمشق ایک بار پھر آزاد شام کا دارالحکومت بن گیا۔
 
کمزور جمہوریت:
 
شام کی کمزور جمہوریت خطے میں کسی بڑی سیاسی ہلچل کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ خاص طور پر 1948 ءمیں فلسطین کی تقسیم اور فوراً شروع ہونے والی عرب اسرائیل جنگ۔
 
1949 ءسے 1970 ء تک کئی بغاوتیں ہوئیں جس کے بعد کئی لیڈر اقتدار میں آئے۔ قاہرہ، دمشق کے بجائے،  متحدہ جمہوری عرب جمہوریہ  (1958-1961ء) کے دوران دارالحکومت رہا، جو مصر اور شام کے مختصر عرصے کے انضمام کے بعد تشکیل دیا گیا۔
 
1963 ءمیں بعث پارٹی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئی اور سوشلسٹ اصلاحات کا تجربہ شروع ہوا۔ 1970 ءمیں اس وقت کے وزیر دفاع حافظ الاسد کی قیادت میں اندرونی بغاوت ہوئی جس کے بعد وہ 30 سال تک ملک کے سربراہ رہے۔ 2000 ءمیں ان کی موت کے بعد ان کا بیٹا بشار الاسد ان کا جانشین بنا۔
 
بشار الاسد ایک جدید اور اصلاح پسند صدر کے طور پر ابھرے۔ اس کے باوجود ان سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ کافی حد تک ادھوری رہیں۔
 
دریں اثنا، دمشق سیاسی طاقتوں، اقتصادی مفادات اور دارالحکومت میں بہتر زندگی کے خواہاں دیہی شامیوں کے لیے ایک مقناطیس کے طور پر کام کر رہا ہے۔
 
محفوظ پناہ گاہ:
 
مارچ 2011 ء میں، صدر بشار الاسد کی قیادت میں شامی حکومت کو ایک بے مثال چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جب ملک بھر میں جمہوریت کے حامی بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔
 
شامی حکومت نے مظاہروں کو دبانے کے لیے پولیس، فوج اور نیم فوجی دستوں کے ساتھ ساتھ پرتشدد کریک ڈاؤن کا استعمال کیا۔
 
2011 ءمیں اپوزیشن جماعتوں نے ملیشیا ءبنانا شروع کر دیا اور 2012 ء تک یہ معاملہ خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا۔
 
2011 ءکے موسم گرما تک، شام کے پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی طاقتیں اسد کے حامی اور مخالف دھڑوں میں تقسیم ہو چکی تھیں۔
 
امریکا اور یورپی یونین بشار الاسد کے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے ان پر تنقید کرتے رہے۔ اگست 2011 ء میں امریکی صدر براک اوباما اور کئی یورپی حکمرانوں نے اسد سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔
 
لیکن شام کے پرانے اتحادی ایران اور روس نے اپنی حمایت جاری رکھی۔ اکتوبر 2011 ء میں روس اور چین نے اسد کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کر دیا۔
 
خانہ جنگی کے دوران دمشق ایک دہائی سے زائد عرصے تک محفوظ پناہ گاہ بنا رہا لیکن شامی باغیوں نے 8 دسمبر 2024 ءکو بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا۔