یوکرین کی روس پربیلسٹک میزائل سے حملے کی تیاریاں؟
Ukraine preparing to attack Russia with ballistic missiles?
کیف:(ویب ڈیسک)امریکانے پہلی بار یوکرین کو روس کے اندر حملہ کرنے کے لیے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔
 
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی صدرجوبائیڈن کی موجودہ انتظامیہ نے یوکرین کو بتایا ہے کہ وہ روس کے اندر محدود حملوں کے لیے امریکی فوج کے ٹیکٹیکل میزائل سسٹم کا استعمال کر سکتی ہے ۔
 
آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم (ATACMS) ایک سپرسونک بیلسٹک میزائل سسٹم ہے جسے امریکی دفاعی کمپنی نے تیار کیا ہے۔
 
امریکا نے اس سے قبل اس طرح کے حملوں کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ اس سے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ چھڑ جائے گی۔
 
 امریکی صدر جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار سونپنے سے دو ماہ قبل یہ بڑی پالیسی میں تبدیلی کی تھی۔
 
امریکا نے استعمال کی اجازت کیوں دی؟
 
یوکرین ایک سال سے زیادہ عرصے سے یوکرین کے اندر روس کے زیر قبضہ اہداف پر آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم (ATACMS) استعمال کر رہا ہے۔
 
یوکرین نے جزیرہ نما کریمیا میں فضائی اڈوں اور زپوریزیا میں روسی فوجی اڈوں پر حملے کے لیے ATACMS کا استعمال کیا ہے۔
 
لیکن امریکا نے ابھی تک یوکرین کو روس کے اندر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
 
لاک ہیڈ مارٹن بیلسٹک میزائل یوکرین کو فراہم کیے گئے سب سے طاقتور میزائلوں میں سے ایک ہے جو 300 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
 
یوکرین کا موقف تھا کہ روس کے اندر ایسے ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت نہ دینا  اپنی پیٹھ کے پیچھے ایک ہاتھ باندھ کر آپ سے لڑنے کو کہنے  کے مترادف ہے۔
 
امریکی پالیسی میں یہ تبدیلی مبینہ طور پر کرسک کے سرحدی علاقے میں روس کی مدد کے لیے شمالی کوریا کے فوجیوں کی حالیہ تعیناتی کے ردعمل میں آئی ہے۔
 
کرسک روس کی سرحد پر ہے اور یہاں یوکرین اگست کے مہینے سے تقریباً ایک ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر قابض ہے۔
 
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ابھی تک امریکہ کے اس اقدام کی تصدیق نہیں کی ہے۔ لیکن انہوں نے اتوار کو کہا، "حملے الفاظ سے نہیں کیے جاتے... میزائل خود بولیں گے۔"
 
میزائلوں کا کیا اثر ہوگا؟
 
اس نئی منظوری سے یوکرین اب ممکنہ طور پر روسی سرحد کے اندر کرسک کے علاقے کے ارد گرد واقع اہداف پر حملہ کر سکے گا۔
 
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یوکرین اب ان میزائلوں کو روسی اور شمالی کوریا کے فوجیوں کے جوابی حملوں کے خلاف دفاع کے لیے استعمال کر سکے گا۔
 
روسی علاقے کرسک پر دوبارہ قبضہ کرنے کے مقصد سے یہ حملہ چند دنوں میں شروع ہو سکتا ہے۔
 
یوکرین کی افواج کرسک میں روسی اہداف پر حملہ کر سکیں گی، جن میں فوج، لاجسٹکس اور انفراسٹرکچر اور گولہ بارود کی دکانیں شامل ہیں۔
 
تاہم یہ سپرسونک میزائل جنگ کی صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتے۔
 
اس طرح کے فیصلے کی توقع رکھتے ہوئے، روس نے پہلے ہی اپنی تیاری کر لی ہے اور اپنے ہوائی اڈوں پر فوجی ساز و سامان پہنچا دیا ہے۔
 
لیکن یہ امریکی میزائل ایک ایسے وقت میں یوکرین کو کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں جب روس مشرقی حصے میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے حوصلے پست ہیں۔
 
یوکرین میں ایک مغربی سفارت کار نے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا، "مجھے نہیں لگتا کہ یہ فیصلہ کن ہو گا۔"
 
تاہم، یہ امریکی امداد میں اضافے اور یوکرین کے لیے فوجی حمایت کا مظاہرہ کرنے کا ایک علامتی فیصلہ ہے، جو طویل عرصے سے زیر التواء ہے اور اس سے روس کے جنگی اخراجات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
 
ایولین فرکاس نے براک اوباما کے دور میں امریکا کی اسسٹنٹ ڈپٹی سیکرٹری آف ڈیفنس کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ان کا خیال ہے کہ یوکرین کو کتنا گولہ بارود فراہم کیا جائے گا اس پر بھی سوالات ہیں۔
 
وہ کہتے ہیں، "سوال یہ ہے کہ ان کے پاس کتنے میزائل ہیں؟ ہم نے سنا ہے کہ امریکی وزارت دفاع، پینٹاگون نے خبردار کیا ہے کہ اتنے میزائل نہیں ہیں جو وہ یوکرین کو فراہم کر سکیں۔"
 
فرکاس نے کہا کہ اگر اے ٹی اے سی ایم ایس کو کرچ پل جیسے اہداف پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا جو کریمیا کو سرزمین سے ملاتا ہے تو اس کا یوکرین میں "مثبت نفسیاتی اثر" ہو سکتا ہے۔
 
دوسرا اثر یہ ہوگا کہ اس سے برطانیہ اور فرانس یوکرین کو روس کے اندر Storm Shadow میزائل استعمال کرنے کی اجازت دے سکیں گے۔
 
Storm Shadow ایک فرانکو-برطانوی طویل فاصلے تک مار کرنے والا کروز میزائل ہے جس کی بہت سی صلاحیتیں امریکی ATACMS جیسی ہیں۔
 
کیا اس سے جنگ کا دائرہ بڑھ سکتا ہے؟
 
روس اور یوکرین کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعے کے خوف سے، بائیڈن انتظامیہ نے مہینوں تک یوکرین کو روس پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے حملہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
 
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے روس پر حملہ کرنے کے لیے مغربی ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دینے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس اسے یوکرین کی جنگ میں نیٹو ممالک کی براہ راست مداخلت کے طور پر دیکھے گا۔
 
پیوٹن نے کہا، "اس سے تنازع کا جوہر اور شکل بدل جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نیٹو ممالک، امریکہ اور یورپی ممالک روس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔"
 
اس سے پہلے بھی روس کچھ ’’ریڈ لائنز‘‘ یعنی جنگ سے متعلق حدود متعین کر چکا ہے۔
 
اگرچہ یہ  سرخ لکیر  روس اور نیٹو کے درمیان براہ راست جنگ شروع کیے بغیر یوکرین کو جدید جنگی ٹینک اور لڑاکا طیارے فراہم کرنے سمیت بعض دیگر معاملات میں بھی عبور کی گئی ہے۔
 
نیٹو میں امریکا کے سابق سفیر کرٹ وولکر نے کہا کہ "یوکرین کی طرف سے امریکی ہتھیاروں کے استعمال کو محدود کر کے، امریکہ غیر منصفانہ طور پر یوکرین کے اپنے دفاع پر یکطرفہ پابندیاں عائد کر رہا ہے۔"
 
انہوں نے کہا کہ اے ٹی اے سی ایم ایس کے استعمال کو محدود کرنے کا فیصلہ "مکمل طور پر صوابدیدی تھا اور روس کو  اُکسانے  کے خوف سے لیا گیا تھا۔"
 
"تاہم، ایسی تبدیلی کو عام کرنا ایک غلطی ہو گی، کیونکہ اس سے روس کو ممکنہ یوکرائنی حملوں کی پیشگی اطلاع مل جائے گی۔"
 
ڈونلڈ ٹرمپ کا ردعمل کیا ہوگا؟
 
اس معاملے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ جو بائیڈن ایک ایسے صدر ہیں جن کی مدت اب ختم ہو رہی ہے۔
 
نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار سونپنے سے قبل ان کے دور اقتدار میں صرف دو ماہ باقی رہ گئے ہیں۔
 
ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ ٹرمپ اس پالیسی کو جاری رکھیں گے یا نہیں۔ لیکن ان کے کچھ قریبی ساتھیوں نے بائیڈن کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔
 
ٹرمپ کے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ فوج اور محکمہ دفاع تیسری جنگ عظیم شروع کرنا چاہتے ہیں اس سے پہلے کہ میرے والد کو امن قائم کرنے اور جان بچانے کا موقع ملے۔
 
ٹرمپ نے یوکرین کی جنگ سے متعلق اپنی پالیسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے ایک دن کے اندر اس تنازعہ کو ختم کرنے کا عزم کیا ہے۔
 
حالانکہ اس نے کبھی نہیں بتایا کہ وہ یہ کیسے کرے گا۔
 
امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی میں ان کے مخالفین نے بھی ان پر پیوتن کے قریب ہونے کا الزام لگایا ہے۔ ٹرمپ کئی بار پوٹن کی تعریف کر چکے ہیں۔
 
نومنتخب نائب صدر جے ڈی وینس کی طرح ٹرمپ کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ امریکا کو یوکرین کو مزید فوجی امداد فراہم نہیں کرنی چاہیے۔
 
لیکن اگلی ٹرمپ انتظامیہ میں کچھ لوگوں کا نظریہ مختلف ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز نے دلیل دی ہے کہ امریکہ یوکرین کو ہتھیاروں کی سپلائی بڑھا سکتا ہے تاکہ روس کو مذاکرات پر مجبور کیا جا سکے۔
 
فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کس سمت جائیں گے۔ لیکن یوکرین میں بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ وہ ATACMS کے لیے گولہ بارود سمیت ہتھیاروں کی فراہمی بند کر دے گا۔
 
یوکرین کے رکن پارلیمنٹ اولیکسی گونچارینکو نے بی بی سی کو بتایا، "ہمیں تشویش ہے، ہمیں امید ہے کہ ٹرمپ اس فیصلے کو واپس نہیں لیں گے۔"
 
بشکریہ: بی بی سی