آیت اللہ خامہ ای کا کہنا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کے خون کا بدلہ لینا اپنا فرض سمجھتے ہیں کیونکہ وہ ایران کی سرزمین پر شہید ہوئے، اسماعیل ہنیہ شہادت کیلئے تیار اور موت سے خوفزدہ نہیں تھے لیکن ان کے خون کا بدلہ ہم پر فرض ہے۔
انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ، حماس، فلسطینی قوم اور اسماعیل ہنیہ کے خاندان سے اظہار تعزیت کرتا ہوں۔
ایرانی میڈیا کے مطابق حماس کے پولیٹیکل بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور ان کے محافظ کو تہران میں ان کی رہائش گاہ پر نشانہ بنایا گیا۔ اسماعیل ہینہ نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے تہران آئے تھے۔
حماس نے اسماعیل ہینہ کی شہادت کی تصدیق کر دی اور کہا کہ فلسطینی عوام اور عرب قوم کیلئے افسوس سے اعلان کرتے ہیں کہ اسماعیل ہنیہ اسرائیلی حملے میں شہید ہوگئے۔
سینئر رہنما و ترجمان حماس ابوزہری کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل بزدلانہ فعل ہے جس کی اسرائیل کو سزا دی جائے گی، اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر فلسطینی، عرب اور اسلامی قوم سے اظہار تعزیت کرتے ہیں، اسرائیل حماس رہنما کی شہادت سے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ان میں کامیاب نہیں ہوگا، مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی کیلئے کھلی جنگ ہوگی، ہرقیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔
اسماعیل ہینہ کے تین بیٹے حازم، أمير اور محمد جان 10 اپریل کو اسرائیلی حملے میں شہید ہوئے تھے۔
واضح رہے اسماعیل ہنیہ کا پورا نام اسماعیل عبدالسلام ھنیہ تھا، وہ 23 مئی 1963ء کو غزہ کے ساحلی علاقے میں قائم پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ اسماعیل ہنیہ نے میٹرک غزہ میں الازھر انسٹیٹیوٹ سے کیا، 1980ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔
1987ء میں اسلامی یونیورسٹی غزہ سے عربی ادب میں ڈگری حاصل کی۔ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران حماس کے طلباء گروپ ’اسلامک بلاک‘ سے وابستہ ہوئے۔
پہلی بار 1987ء میں اسماعیل ھنیہ کو اسرائیلی فوج نے حراست میں لیا۔ گرفتاری کے بعد وہ 18 روز جیل میں رہے۔ سنہ 1988ء میں انہیں دوبارہ حراست میں لیا گیا اور 6 ماہ تک پابند سلاسل رہے۔
سنہ 1989ء میں ان کی تیسری بار گرفتاری عمل میں لائی گئی اور مسلسل تین سال اسرائیلی جیلوں میں قید رہے۔ سنہ 2006ء میں فلسطین میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حماس کی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔ اسماعیل ہنیہ غزہ میں بننے والی حماس حکومت کے وزیر اعظم تھے۔