پاکستانی ایٹمی پروگرام کے حقیقی خالق ڈاکٹر رفیع
Image
لاہور:(ویب ڈیسک) ڈاکٹر رفیع محمد چودھری، جنہیں بانی پاکستان محمد علی جناح نے خط لکھ کر پاکستان بلایا، پاکستانی ایٹمی پروگرام کے حقیقی خالق مانے جاتے ہیں۔
 
 ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے 1998 ء میں پاکستانی ایٹمی تجربات کی کامیابی کے بعد لاہور میں یہ بات کہی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں شائع خصوصی تحریر میں کہا گیا ہے کہ 1903 ء میں مشرقی پنجاب کے ضلع روہتک کے گاؤں کہنور میں پیدا ہونے والے رفیع محمد چودھری نے وائسرائے روفس آئزکس کے وظیفے پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔
 
 انہوں نے ایم ایس سی فزکس میں اول آنے کے بعد بھوپال کے نواب حمید اللہ خان کے وظیفے پر کیمبرج یونیورسٹی سے نیوکلیئر فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، جہاں انہوں نے کیونڈش لیبارٹری میں ارنسٹ ردرفورڈ کی نگرانی میں کام کیا۔
 
1930ء کی دہائی میں، ڈاکٹر چودھری برطانوی ہندوستان لوٹے اور لاہور کے اسلامیہ کالج میں فزکس پڑھانے لگے۔
 
 1938 ءمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ فزکس کے سربراہ بنے۔
 
 تقسیم  ہند کے بعد، ڈاکٹر چودھری کو پاکستان بلایا گیا اور انہیں گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ فزکس کی سربراہی کی پیشکش کی گئی۔
 
بابائے قوم اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒکے دعوت نامے پر ڈاکٹر چودھری 1948 ءمیں پاکستان آئے۔ 
 
انہوں نے لاہور میں گورنمنٹ کالج جوائن کیا اور علی گڑھ یونیورسٹی سے استعفا دے دیا۔
 
 ان کے بیٹے ڈاکٹر منور چودھری کے مطابق، ان کے والد نے محسوس کیا کہ تقسیم کے بعد مسلمانوں کا مستقبل پاکستان میں زیادہ محفوظ ہے۔
 
پاکستان میں ڈاکٹر چودھری نے جوہری تحقیق کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں ہائی ٹینشن لیبارٹری کی بنیاد رکھی۔
 
 وہ 1958 ء میں 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہوئے لیکن مختصر مدت کے لیے ہائی ٹینشن لیبارٹری کے ڈائریکٹر مقرر کیے گئے۔ 1965 ءتک اس لیبارٹری میں اہم کام جاری رہا۔
 
ڈاکٹر رفیع چودھری نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں جوہری ٹیکنالوجی پر تحقیق کی۔ 
 
وہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پہلے ڈائریکٹر تھے اور نیوکلیئر پارٹیکل ایکسلریٹر کی تنصیب میں اہم کردار ادا کیا۔
 
انہوں نے پاکستان کے پہلے ری ایکٹر کی نگرانی کی اور 1967 ء میں ریڈیوآئسوٹوپس کی پہلی کھیپ تیار کی۔
 
 1972 ءمیں صدر ذوالفقار علی بھٹو کی بلائی ملتان ملاقات میں شرکت کی اور پاکستانی ایٹمی پروگرام کی حکمت عملی طے کی۔
 
ڈاکٹر رفیع چودھری نے 1932 ء سے 1988ء کے دوران 53 تحقیقی مقالات لکھے، جو مختلف بین الاقوامی جرائد کی زینت بنے۔ 
 
انہیں ستارہ خدمت (1964ء)، ستارہ امتیاز (1982ء) اور ہلال امتیاز (2005ء) سے نوازا گیا۔
 
چار دسمبر 1988 ءکو مختصر علالت کے بعد ڈاکٹر رفیع محمد چودھری وفات پا گئے۔
 
 ان کی خدمات کا اعتراف آج بھی پاکستانی ایٹمی پروگرام کے کامیابیوں میں کیا جاتا ہے۔
 
ڈاکٹر چودھری کے پوتے، عثمان چودھری، ان کے کارناموں پر فلم بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ "رفیع: دی ان ٹولڈ سٹوری" کے نام سے اس فلم کا ٹیزر یوٹیوب پر موجود ہے، جس میں ڈاکٹر رفیع چودھری کی زندگی اور ان کے کارناموں کو پیش کیا گیا ہے۔
 
ڈاکٹر رفیع چودھری کے کام نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں، جس سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے میں مدد ملی۔
 
 ان کے شاگردوں نے بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جوہری تحقیق میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
 
پروفیسر ایم اکرام الحق نے لکھا ہے کہ پاکستان میں تجرباتی ایٹمی جوہری طبیعیات کے بانی اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے حقیقی معمار ڈاکٹر رفیع محمد چودھری آج تک ایک گمنام ہیرو بنے ہوئے ہیں۔ 
 
ڈاکٹر رفیع چودھری کو 1958 ء میں 55 سال کی عمر میں 600 روپے ماہانہ کی معمولی پنشن کے ساتھ ریٹائرمنٹ پر مجبور کر دیا گیا۔
 
تاہم، ان کی خدمات اور کارنامے پاکستانی سائنس کے میدان میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ 
 
ڈاکٹر رفیع چودھری نے نا صرف پاکستانی ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی بلکہ انہوں نے پاکستان کے تعلیمی نظام میں بھی اہم کردار ادا کیا اور کئی طلبہ کو سائنسی تحقیق کی طرف مائل کیا۔
 
ڈاکٹر رفیع چودھری کے کام اور ان کی زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو پاکستان کی ایٹمی ترقی اور سائنسی تحقیق کے لیے وقف کر دیا تھا۔
 
 ان کی محنت اور لگن کا ثمر آج پاکستان کی ایٹمی طاقت کی صورت میں نظر آتا ہے۔