پاکسانی ویٹ لفٹر نوح دستگیر بٹ نے تاریخ رقم کر دی
Nooh Dastgir Butt
لاہور: (سنو نیوز) ایشین پاور لفٹنگ چیمپئن شپ مین پاکستانی ویٹ لفٹر نوح دستگیر بٹ نے 400 کلوگرام وزن اٹھا کر ایشین ریکارڈ قائم کر دیا۔

پاکستان کے مایہ ناز پاور لفٹر نوح دستگیر بٹ نے ایشین پاور لفٹنگ چیمپئن شپ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخ رقم کردی۔ انہوں نے 400 کلوگرام وزن اٹھا کر اسکواٹ کی کیٹیگری میں نیا ایشین ریکارڈ قائم کیا اور پاکستان کا نام روشن کیا۔

ازبکستان میں جاری ایشین پاور لفٹنگ چیمپئن شپ میں نوح دستگیر بٹ نے 120 پلس کلوگرام کیٹیگری میں شمولیت اختیار کی۔ اپنے پہلے ہی مقابلے میں انہوں نے 400 کلوگرام وزن اٹھا کر نہ صرف اپنی مہارت کا لوہا منوایا بلکہ ایشین ریکارڈ قائم کرتے ہوئے پہلا گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔

رپورٹس کے مطابق نوح بٹ نے اسکواٹ کیٹیگری میں شاندار کارکردگی کے بعد دیگر کیٹیگریز، بشمول بینچ پریس، ڈیڈ لفٹ اور مجموعی مقابلوں میں بھی اپنی مہارت کے جوہر دکھانے کی تیاری کر رکھی ہے۔ ان کی اگلی پرفارمنسز کا شدت سے انتظار کیا جارہا ہے۔

نوح بٹ کی اس شاندار کامیابی نے نہ صرف پاکستان میں کھیلوں کے شائقین کے دل جیت لیے ہیں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت تاثر اجاگر کیا ہے۔ پاور لفٹنگ کے حلقوں میں ان کی یہ کامیابی ایک تاریخی لمحہ کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔

نوح دستگیر بٹ پاکستان کے مشہور پاور لفٹر ہیں جنہوں نے کئی بین الاقوامی مقابلوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ انہوں نے 2022 کے کامن ویلتھ گیمز میں 109 کلوگرام سے زائد کی کیٹیگری میں گولڈ میڈل حاصل کیا، جہاں انہوں نے 405 کلوگرام وزن اٹھا کر کامن ویلتھ ریکارڈ قائم کیا تھا۔ یہ ان کی پہلی بڑی بین الاقوامی کامیابی تھی جس نے انہیں عالمی سطح پر پہچان دلائی۔ ان کی غیرمعمولی کارکردگی نے انہیں پاور لفٹنگ کے میدان میں ایک اہم مقام دلوایا، وہ پاکستان کے لیے ایک امید کی کرن بنے رہے ہیں۔

قبل ازیں نوح دستگیر بٹ نے 2018 کے کامن ویلتھ گیمز میں بھی کانسی کا تمغہ جیتا تھا جو ان کی محنت اور عزم کا واضح ثبوت تھا۔ مزید براں انہوں نے کئی ایشیائی اور قومی سطح کے مقابلوں میں کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ ان کی تربیت اور مستقل مزاجی نے انہیں پاکستان میں پاور لفٹنگ کا سب سے مضبوط ستون بنا دیا ہے۔ ان کی پرفارمنسز پاکستان میں کھیلوں کے شائقین کے لیے نہ صرف ایک فخر کا باعث ہیں بلکہ نوجوان کھلاڑیوں کے لیے تحریک کا ذریعہ بھی ہیں۔