
تفصیلات کے مطابق یہ درخواستیں نہ صرف سلاٹر ہاؤس آپریشنز بلکہ برآمدی کلیئرنس کا بھی احاطہ کرتی ہیں اور اس وقت زیرِ غور ہیں۔ اگر ان کی منظوری مل جاتی ہے تو ان کمپنیوں کو اجازت دی جائے گی کہ وہ صرف گوادر، بلوچستان کے ذریعے گدھوں کی مصنوعات کو پراسیس اور برآمد کر سکیں گے۔ ملک کے کسی اور حصے میں گوشت کی تیاری یا ترسیل کی اجازت نہیں ہوگی تاکہ مقامی سطح پر اس کی تقسیم کو روکا جا سکے۔
واضح رہے کہ یہ پیشرفت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب 27 جولائی کو اسلام آباد فوڈ اتھارٹی (IFA) نے ترنول میں ایک غیر قانونی سلاٹر ہاؤس پر چھاپہ مارا۔ اس کارروائی کے دوران 1,000 کلو گرام گدھے کا گوشت برآمد ہوا اور 50 سے زائد زندہ گدھوں کو بچایا گیا۔ موقع سے ایک غیر ملکی شہری کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
ابتدائی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ گوشت کو برآمد کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ حکام نے مزید تحقیقات شروع کر دی ہیں تاکہ دیگر ممکنہ ترسیلی مقامات کا پتہ لگایا جا سکے۔
یاد رہے پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق ملک میں گدھوں کی آبادی میں گزشتہ سال کے دوران 1 لاکھ 9 ہزار کا اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد اب 60 لاکھ 47 ہزار تک ہو چکی ہے۔