
ذرائع کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تمام نکات پر اتفاق رائے ہو گیا، حکومت اور اپوزیشن نے باہمی اتفاق رائے سے متنازع ایشوز کو حل کر لیا، مذاکرات کی کامیابی کی اطلاع کے بعد سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان آڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ حکومتی اور اپوزیشن کے درمیان دوران اجلاس نازیبا الفاظ استعمال نہ کرنے پر اتفاق ہوا ہے، گالی گلوج کی روایات کو نہیں دہرایا جائے گا، اپوزیشن کو احتجاج کا حق ہے مگر آئین کے مطابق کیا جائے گا،ایتھکس کمیٹی کے فیصلے سپریم ہوں گے۔
پنجاب اسمبلی ذرائع کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کے بعد تحریک انصاف کے 26 معطل اراکین کی بحالی کا طریقہ کار طے کیا جائے گا۔
اجلاس کے بعد حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن میاں مجتبیٰ شجاع الرحمان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ آج کا اجلاس نتیجہ خیر رہا ، حکومت و اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے ہو گیا ہے، رولز آف بزنس 1997 ٹو تھری کے مطابق آئندہ اجلاس میں اپوزیشن و حکومت گالی گلوچ اور ممبر کی تضحیک نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اتفاق رائے یہ ہوا ہے لیڈر آف دی اپوزیشن کی ایوان میں بات کو وزن دیا جائے گا اور کوئی نعرے بازی نہیں کی جائے گی، وزیر اعلیٰ مریم نواز کے خطاب میں بھی کوئی احتجاج نہیں ہو گا اور نہ ہی نعرے بازی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے معطل اراکین اسمبلی کی سپیکر سے ملاقات کی اندرونی کہانی
ان کا کہنا تھا کہ بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں جو فیصلہ ہوں گے اس پر اجلاس چلے گا، بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں حکومت و اپوزیشن فیصلہ کرتے ہیں اجلاس کیسے چلانا ہے، ایتھکس کمیٹی دیکھے گی معاہدہ و مذاکرات ہوئے ہیں اس کی خلاف ورزی ہوگی تو اس کی سزا کا تعین ہوگا۔
میاں مجتبیٰ شجاع الرحمان نے کہا کہ رانا محمد اقبال نے اجلاس کی صدارت کی، سپیکر ملک محمد احمد خان آن لائن ہمارے ساتھ تھے، معطل 26 ممبران سینیٹ اجلاس میں ووٹ ڈال سکیں گے ، ان کی بحالی سپیکر خود کریں گے، آئین و قانون کے مطابق سپیکر تفصیلی رولنگ دیں گے۔
صوبائی وزیر چودھری شافع حسین نے اس موقع پر کہا کہ اپوزیشن و حکومت کے درمیان طے ہوا ہے مل بیٹھ کر معاملہ حل کیا جائے ، لڑائی جھگڑے کے بجائےاتفاق رائے سے معاملہ حل ہوگا، گالی گلوچ سے پرہیز کیا جائے گا۔
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن شعیب صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر اور لیڈر آف دی ہاؤس میں سے کوئی ایوان میں بات کرے گا تو اسے رولز کے مطابق سنا جائے گا، اپوزیشن تنقید کرے لیکن تنقید برائے تعمیر ہونی چاہئے، اب جو نیا اجلاس ہو گا وہ نئی تہذیب سے ہوگا۔