قیدی نمبر 804 کی رہائی کے امکانات
Image
لاہور:(ویب ڈیسک) عمران خان پاکستانی سیاست کے لیے درد سر بن گئے ہیں۔ ان کو تقریباً ہر کیس میں ضمانت مل رہی ہے، اس لیےسیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الحالان کو زیادہ عرصے تک جیل میں رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
 
درحقیقت ایک سال سے جیل میں رہنے والے عمران خان کو جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ سے بڑا ریلیف ملا ،جب مئی کو ہونے والے تشدد سے متعلق 12 مقدمات میں سابق وزیراعظم کا ریمانڈ منسوخ کر دیا گیا۔
 
 عمران خان کے خلاف 200 کے قریب مقدمات ہیں اور ان میں سے بیشتر میں انہیں ضمانت مل چکی ہے۔
 
 ایک ایسے وقت میں جب وہ رہائی کے دہانے پر تھے، ان پر نئے مقدمات مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔ 
 
پنجاب پولیس نے گذشتہ ہفتے عمران خان خان کونئے کیسز میں گرفتار کیا۔ یہ گرفتاری عدت کیس میں بانی پی ٹی آئی  اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی بریت کے فوراً بعد عمل میں آئی۔
 
عمران خان نے 18 جولائی کو لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں گذشتہ سال لاہور کور کمانڈرہاؤس سمیت فوجی اور دیگر اداروں پر حملوں سے متعلق 12 فوجداری مقدمات میں اپنے ریمانڈ کو چیلنج کیا گیا تھا۔
 
استغاثہ اور عمران خان کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے ان کا ریمانڈ دینے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان مقدمات میں عدالتی تحویل میں رہیں گے۔ 
 
عمران خان کی پارٹی کا کہنا ہے کہ انہیں طاقتور حلقوں کے کہنے پر مزید مقدمات میں گرفتار کیا جا رہا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ جیل سے باہر نہ نکلیں۔
 
 
جیل میں ہونے کے باوجود عمران خان پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا محور بنے ہوئے ہیں۔ 
 
ان کی عدم موجودگی کے بعد شہباز شریف کی قیادت میں پی ایم ایل این-نواز اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں انتخابات میں کوئی بڑی کامیابی درج نہیں کر سکیں۔ 
 
حتیٰ کہ نواز شریف اور بلاول بھٹو کی پارٹی پر دھاندلی سے الیکشن جیتنے کا الزام لگایا گیا۔ حکومت کو مہنگائی روکنے میں ناکام نظر آ رہی ہے ، اس لیے حکومت کی مقبولیت دن بدن گرتی جا رہی ہے۔ 
 
 مایوسی کے عالم میں حکومت نے عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن اس کا اثر اتنا برا ہوا کہ اسے پیچھے ہٹنا پڑا۔