ادب کا نوبل انعام جیتنے والی کینیڈین مصنفہ ایلس منرو انتقال کر گئیں
Image
اوٹاوا:(ویب ڈیسک)2013 ءمیں ادب کا نوبل انعام جیتنے والی کینیڈین مصنفہ ایلس منرو 92 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
 
60 سال سے زیادہ عرصے تک، منرو نے مختصر کہانیاں لکھیں، جو اکثر کینیڈا کے دیہی علاقوں میں لوگوں کی زندگیوں سے متعلق تھیں۔
 
محترمہ منرو کے خاندان اور پبلشر نے تصدیق کی کہ ان کا انتقال پیر کی رات پورٹ ہوپ، اونٹاریو میں واقع اپنے گھر میں ہوا۔
 
منرو کا موازنہ اکثر مشہور روسی مصنف انتون چیخوف سے کیا جاتا تھا ۔
 
پینگوئن رینڈم ہاؤس کینیڈا کی اشاعتی ڈائریکٹر کرسٹین کوکرن نے ایک بیان میں کہا، "ایلس منرو ایک قومی جواہر تھیں۔ وہ  ہمدردی اور انسانیت کی مصنفہ ہیں جن کے کام کو کینیڈا اور دنیا بھر میں پڑھا اور سراہا جاتا ہے۔"
 
ان کو پہلی کامیابی 1968ء میںملی، جب انہوں نے مختصر کہانیوں کا ایک مجموعہ ہیپی شیڈو ڈانس شائع کیا۔
 
مغربی اونٹاریو میں زندگی کے بارے میں اس کتاب نے کینیڈا کا سب سے اہم ادبی ایوارڈ، گورنر جنرل کا ایوارڈ جیتا ہے۔ یہ گورنر جنرل کے تین ایوارڈز میں سے پہلا ایوارڈ تھا جو انہیں اپنی زندگی میں ملا۔
 
منرو نے مختصر کہانیوں کے 13 مجموعے شائع کیے، ایک ناول "لائیوز آف گرلز اینڈ ویمن" اور منتخب کہانیوں کی دو جلدیں شائع کیں۔
 
1977 ءمیں، دی نیویارکر میگزین نے منرو کی ایک کہانی "دی کنگلی بیٹنگز" شائع کی۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ اس میگزین کے لیے کہانیاں لکھتی رہیں۔
 
منرو ایک اسکول ٹیچر کی بیٹی تھیں جو، 1931 ءمیں ونگھم، اونٹاریو میں پیدا ہوئی۔ ان کی بہت سی کہانیاں اس علاقے میں رونما ہوتی ہیں اور وہاں کے لوگوں کی زندگی، ثقافت اور طرز زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔
 
وہ ہائی اسکول میں آنرز کی طالب علم رہیں۔ اور لندن کی یونیورسٹی آف ویسٹرن اونٹاریو میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ حاصل کی تھی۔ اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے درخواست دہندگان میں منرو کا انگریزی میں سب سے زیادہ اسکور تھا۔
 
منرو نے  ایک بار بتایا تھاکہ کالج میں انہوں نے اپنا آدھا وقت پڑھائی اور باقی آدھا لکھنے میں صرف کیا۔
 
ان کی کہانیاں 1950 ءاور 1960 ءکی دہائیوں میں CBC پر نشر ہوئیں اور کینیڈا کےکئی  رسالوں میں شائع ہوئیں۔
 
ان کی کچھ کہانیاں 1960 ءکی دہائی کے سماجی انقلاب سے پہلے اور بعد کے حالات کا موازنہ کرتی ہیں۔
 
2006 ءکی فلم "فار فرام ہیم "جس میں جولی کرسٹی اور گورڈن پنسنٹ نے اداکاری کی تھی، ان کی ایک مشہور کہانی، دی بیئر کیم ڈاؤن دی ماؤنٹین پر مبنی تھی۔
 
2009 ءمیں، منرو نے مین بکر انٹرنیشنل پرائز جیتا تھا۔اس ایوارڈ کے ججوں نے لکھا: "جب بھی آپ ایلس منرو کو پڑھتے ہیں، تو آپ کچھ سیکھتے ہیں جس کے بارے میں آپ نے پہلے سوچا بھی نہیں تھا۔"
 
اس کے بعد میں انہوں نے 2013 ءمیں ادب کا نوبل انعام جیتا تھا۔نوبل کمیٹی نے منرو کو "عصری مختصر کہانی کا ماہر" قرار دیا تھا۔
 
اسی سال دی گارڈین کے ساتھ ایک انٹرویو میں، منرو نے کہا، "میں ساری زندگی ذاتی کہانیاں لکھتی رہی ہوں۔"