الیکشن ٹریبونل کے جج جسٹس عبداللہ بلوچ نے الیکشن کمیشن اور متعلقہ حکام کو احکامات جاری کیے ہیں کہ ان پولنگ اسٹیشنوں پر صاف اور شفاف انتخابات یقینی بنانے کے لیے نئے ریٹرننگ آفیسر، ڈپٹی ریٹرننگ آفیسر اور نیا عملہ تعینات کیا جائے۔
الیکشن ٹریبونل کے تفصیلی فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے حلقے کے 15 پولنگ اسٹیشنوں پر صاف اور شفاف انتخابات کرانے کی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ نواب بگٹی ہائی سکول سریاب مل پولنگ اسٹیشن سے الیکشن سے قبل ہی ایس ایچ او نیو سریاب دروازہ توڑ کر انتخابی مواد لے گیا،جس کے بعد الیکشن کے دن 4 بیلٹ بکس اور دیگر انتخابی مواد غائب پایا گیا۔ اس کے علاوہ، ڈی جی زراعت کے دفتر کے پولنگ اسٹیشن سے 5 بیلٹ بکس کی گمشدگی کی بھی تصدیق ہوئی۔ ان واقعات نے انتخابی عمل پر سوالیہ نشان لگا دیا۔
فیصلے کے مطابق پرایزائڈنگ آفیسرز نے بیلٹ بکس اور انتخابی مواد کی گمشدگی کے بارے میں ریٹرننگ آفیسر کو تحریری اطلاع دی تھی، لیکن ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے اس سنگین معاملے پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ٹریبونل نے کہا کہ بیلٹ بکس کی گمشدگی سے ریٹرننگ آفیسر اور متعلقہ پولیس اہلکاروں کی ملی بھگت ظاہر ہوتی ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ حلقے کے 49 پولنگ اسٹیشنوں سے فارم 47 کے مطابق، پیپلز پارٹی کے امیدوار علی مدد جتک نے 5,671 ووٹ حاصل کیے، جبکہ متنازعہ 15 پولنگ اسٹیشنوں سے کامیاب امیدوار کے 4,911 ووٹ شمار کیے گئے۔ باقی 34 پولنگ اسٹیشنوں سے علی مدد جتک کے ووٹ صرف 760 تھے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ متنازعہ پولنگ اسٹیشنوں پر پڑنے والے ووٹوں کی شرح غیر معمولی اور غیر فطری ہے۔
الیکشن ٹریبونل نے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ 15 متنازعہ پولنگ اسٹیشنوں پر پڑنے والے ووٹوں کی تعداد غیر معمولی ہے، جو شفافیت کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ حلقے میں بے قاعدگیاں اور غیر قانونی اقدامات مبینہ طور پر ریٹرننگ آفیسر کی ملی بھگت سے ہوئیں، جس کی وجہ سے ان پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 45 کوئٹہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے علی مدد جتک کو کامیاب قرار دیا گیا تھا، جنہوں نے مجموعی طور پر 5,671 ووٹ حاصل کیے۔ تاہم، ان کی کامیابی کو جے یو آئی (ف) کے امیدوار محمد عثمان پرکانی نے چیلنج کیا تھا، جنہوں نے حلقے میں دھاندلی، انتخابی بے قاعدگیوں اور الیکشن کمیشن کی عدم شفافیت پر سوالات اٹھائے تھے۔
ٹریبونل نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ 15 متنازعہ پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ انتخابات کے لیے نئے عملے کی تعیناتی یقینی بنائے اور آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے مزید سخت اقدامات کرے تاکہ انتخابی عمل کی شفافیت کو برقرار رکھا جا سکے۔