
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز پوچھے گئے عدالتی سوالات سے دلائل کا آغاز کروں گا، 2018 کے انتخابات میں مخصوص نشستیوں کی الاٹمنٹ کا ریکارڈ مانگا گیا تھا، میرے پاس ریکارڈ آگیا ہے، 2002 اور 2018 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے۔
اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزادامیدواروں کو، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہوگی، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا۔
اٹارنی جنرل نے 2018 میں مخصوص نشستوں کا فارمولا عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ 272 مکمل سیٹیں تھیں، تین پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے، 9 امیدوار سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 256 نشستوں پر نافذ ہوا،
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ مخصوص نشستیں انتخابات میں حصہ لیکر سیٹیں جیتنے والوں کو ہی دی گئیں، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہوگی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ کو بنیادی سوال کو دیکھنا ہو گا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے الیکشن سے نکال دی، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، بنیادی حقوق کے محافظ ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری نہیں اسے درست کریں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری گزارشات کے آخری حصے میں اس سوال کا جواب ہوگا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ماضی میں کبھی آزاد اراکین کا معاملہ عدالت میں نہیں آیا، اس مرتبہ آزاد اراکین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کیس بھی آیا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین واضح ہے مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جا سکتیں، اگر اسمبلی مدت ختم ہونے میں 120 دن رہ جائیں تو آئین کہتا ہے الیکشن کرانے کی ضرورت نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ آزاد اراکین کی بڑی تعداد آئی کہاں سے ہے ؟ کیا الیکشن کمیشن کی سپریم کورٹ کے فیصلے کی ناقص تشریح کے نتیجے میں اراکین آزاد ہوئے ؟ کیا اس غلطی کی تصیح کرنا عدالت کی ذمہ داری نہیں ہے ؟ پارلیمانی نظام جمہوریت کی بنیاد پولیٹیکل پارٹیز ہیں، اصل مسئلہ الیکشن کمیشن کی غلطی کے سبب پیش آیا، اگر متبادل طریقے موجود ہیں تو درستگی ہونی چاہیے، آئین سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نشستیں خالی نہیں چھوڑ سکتیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اصل انجن ہی پولیٹیکل پارٹیز ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا مطلب ہے کہ عوامی نمائندگی جھلکنی چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 51 ڈی کے تحت آزاد اراکین کو الگ رکھا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کسی فریق نے یہ موقف ہی اختیار نہیں کیا کہ نشستیں خالی چھوڑی جا سکتی ہیں، سنی اتحاد کونسل نے بھی یہی موقف اختیار کیا کہ نشستیں خالی نہیں چھوڑی جا سکتیں، میں بار بار آئین کی تحریر پر جا رہا ہوں، آئین جانے اور پارلیمنٹ جانے، موجودہ سچوئشن بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا یہ ان کا کام ہے، آئین میں کیا کیوں نہیں ہے یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے، بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں۔
اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پولیٹیکل پارٹی وہ ہوتی ہے جس نے کم از کم ایک جنرل نشست جیتی ہو، پولیٹیکل پارٹی پھر بعد میں پارلیمانی پارٹی بنتی ہے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا معاملہ تو یہاں غیر متعلقہ ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ پارلیمانی پارٹی کس شق کے تحت بنتی ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا معاملہ آرٹیکل 63اے سے متعلقہ ہے، پولیٹیکل پارٹی ہی پارلیمانی پارٹی بنتی ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا آزاد اراکین تین دنوں میں اپنی پولیٹیکل پارٹی بنا سکتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ پارلیمنٹ میں جتنے بھی فیصلے لیے جاتے ہیں وہ پارلیمانی پارٹی ہی کرتی ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پولیٹیکل پارٹی ہی پارلیمانی پارٹی بن سکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کر چکا ہے ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کس اختیار کے تحت پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کرتا ہے ؟ پارلیمانی پارٹی قرار دینے کا نوٹیفکیشن کیسے آیا ؟ وہ نوٹیفکیشن سنی اتحاد کونسل نے ریکارڈ پر رکھا ہے۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جواب الجواب دلائل میں وہ خود بتا دیں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وہ نہیں، آپ بتائیں الیکشن کمیشن کے اس نوٹیفکیشن پر کیا کہتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹیفکیشن اٹارنی جنرل کو دکھا دیا۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا نوٹیفکیشن بھی دکھایا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نوٹیفکیشن سے زرتاج گل کو پارلیمانی لیڈر بھی بنا چکا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ سے متعلقہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ امیدوار سنی اتحاد کونسل کے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک ڈپٹی رجسٹرار یا رجسٹرار کے خط کو آفیشلی سپریم کورٹ کا موقف کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک طرف کہا جا رہا ہے الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، سب کچھ کر سکتا ہے، اسمبلی سیکریٹریٹ کیساتھ الیکشن کمیشن کی آفیشل خط و کتابت ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک آئینی شق کو تنہائی میں نہیں پڑھا جا سکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی نہیں ہے تو کیا منحرف والی شق نہیں لگے گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پولیٹیکل پارٹی ہی پارلیمانی پارٹی بن سکتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے کی تشریح کر کے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، کیا آپ ایک آئینی ادارے کی جانب سے فیصلے کی غیر آئینی تشریح کی توسیق کرنا چاہتے ہیں ؟ الیکشن کمیشن نے فیصلے کی تشریح کر کے ائین کی سنگین خلاف ورزی کی، کیا آپ ایک آئینی ادارے کی جانب سے فیصلے کی غیر آئینی تشریح کی توسیق کرنا چاہتے ہیں ؟ کیا الیکشن کمیشن کے غلط فیصلے کی توثیق نظریہ ضرورت نہیں ہوگا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم آنکھیں بند نہیں کر سکتے، ہم اگر پوری پکچر نہ دیکھ سکیں تو پھر مکمل انصاف کے اختیار کو کیا کرنا ہے ؟ ہم سب کو پتہ ہے اتنے آزاد امیدوار پی ٹی آئی سے وابستگی دکھا کر کامیاب ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل یہ سادہ اپیل نہیں، عوام کے حقوق کا کیس ہے، آپ چاہتے ہیں ہم الیکشن کمیشن کی غلط تشریح کو قانونی قرار دیں ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف کے اصول کیلئے آئین و قانون پر ہی انحصار کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی، کیا آئینی ادارے کی جانب سے غیرآئینی تشریح کی عدالت توثیق کر دے ؟ کیا آپ چاہتے ہیں ہم نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کر دیں ؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کوئی پٹواری کی زمین کا تنازع کا کیس نہیں جو صرف اپیل تک محدود رہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل میرے سوال کا جواب دیں، کیا ہم الیکشن کمیشن کی غلط تشریح کو نظر اندا کر دیں۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت 9 جولائی تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ 6 مئی عدالت عظمیٰ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کا ای سی پی کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔
3 مئی کو تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ عدالت عظمیٰ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔
یاد رہے 4 مارچ کو ای سی پی نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کی درخواستیں مسترد کر دیں تھی۔ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں دینے کی سنی اتحاد کونسل کی اپیل کو مسترد کیا۔
چار ایک کی اکثریت سے جاری فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے فہرست جمع نہیں کرائی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے دوسری سیاسی جماعتوں کو دی جائیں گی۔
الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے (ن) لیگ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
بعد ازاں تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔