
غیر ملکی طبی جریدے میں شائع ہونے والی ایک آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ کے مطابق امریکی ریسرچرز نے ذہنی پریشانی اور پرسکون زندگی کا تعلق کمائی یا دولت سے جانچنے کیلئے 10 سال طویل ریسرچ کی۔
ماہرین نے اپنی اس تحقیق میں امریکا میں سالانہ 63 ہزار امریکی ڈالر آمدن کے حامل 20 لاکھ سے زائد افراد کو شامل کیا،ماہرین نے 2008 سے 2017 تک امریکا کے مختلف شہروں اور علاقوں میں مقیم افراد سے ان سے زندگی اور ذہنی صحت سے متعلق سوالات بھی پوچھے۔
ریسرچرز طویل تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جو افراد سالانہ 63 ہزار سے آمدن کے حام ہیں ان میں ذہنی پریشانی کم ہوتی ہے، تاہم جیسے جیسے ایسے افراد کی کمائی میں اضافہ ہونے لگتا ہے ان میں ذہنی پریشانی بڑھنے لگتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جو شخص جتنی زیادہ دولت کمائے گا وہ اتنا ہی زیادہ ذہنی پریشانی یا ذہنی بے سکونی کا شکار ہوگا، زیادہ دولت جہاں پرسکون زندگی میں بھی معاون ہوتی ہے وہیں وہ ذہنی بے سکونی یا پریشانی کا سبب بھی بنتی ہے۔
طبی ماہرین نے دریافت کیا کہ ممکنہ طور پر زیادہ کمائی یا دولت آنے سے تمام خواہشیں مکمل ہونے پر لوگ محنت اور جستجو کرنا ترک کر دیتے ہیں جس وجہ سے ان میں ذہنی بے سکونی یا پریشانی بڑھ جاتی ہے۔
تحقیقی ماہرین نے بتایا کہ ممکنہ طور پر زیادہ کمائی یا دولت سے انسان سماجی سرگرمیوں سے بھی دور ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے بھی ایسے افراد میں سٹریس بڑھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں،بہت زیادہ کم کمائی یا اپنی ضروریات کو پورا نہ کرپانے والے افراد میں بھی ڈپریشن کی علامات پائی جاتی ہیں۔